Friday, 3 May 2013

Sahih Bukhari - Wahi Ka Bayan - Hadith # 3

Leave a Comment
صحیح بخاری
 وحی کا بیان :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کس طرح شروع ہوئی، اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہم نے تم پر وحی بھیجی جس طرح حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے بعد پیغمبروں پر وحی بھیجی ۔

صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 3               حدیث مرفوع        مکررات  24   متفق علیہ 22
حدثنا يحيی بن بکير قال  أخبر  نا الليث عن عقيل عن ابن شهاب عن عروة بن الزبير عن عائشة أم المؤمنين  رضي الله عنها أنها قالت أول ما بدئ به رسول الله صلی الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصالحة في النوم فکان لا يری رؤيا إلا جائت مثل فلق الصبح ثم حبب إليه الخلائ وکان يخلو بغار حرائ فيتحنث فيه وهو التعبد الليالي ذوات العدد قبل أن ينزع إلی أهله ويتزود لذلک ثم يرجع إلی خديجة فيتزود لمثلها حتی جائه الحق وهو في غار حرائ فجائه الملک فقال اقرأ فقال  فقلت  ما أنا بقارئ قال فأخذني فغطني حتی بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال اقرأ قلت ما أنا بقارئ فأخذني فغطني الثانية حتی بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال اقرأ فقلت ما أنا بقارئ  قال  فأخذني  فغطني الثالثة ثم أرسلني فقال اقرأ باسم ربک الذي خلق خلق الإنسان من علق اقرأ وربک الأکرم فرجع بها رسول الله صلی الله عليه وسلم يرجف فؤاده فدخل علی خديجة بنت خويلد رضي الله عنها فقال زملوني زملوني فزملوه حتی ذهب عنه الروع فقال لخديجة وأخبرها الخبر لقد خشيت علی نفسي فقالت خديجة کلا والله ما يخزيک الله أبدا إنک لتصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم وتقري الضيف وتعين علی نوائب الحق فانطلقت به خديجة حتی أتت به ورقة بن نوفل بن أسد بن عبد العزی ابن عم خديجة وکان امرأ  تنصر في الجاهلية وکان يکتب الکتاب العبراني فيکتب من الإنجيل بالعبرانية ما شائ الله أن يکتب وکان شيخا کبيرا قد عمي فقالت له خديجة يا ابن عم اسمع من ابن أخيک فقال له ورقة يا ابن أخي ماذا تری فأخبره رسول الله صلی الله عليه وسلم خبر ما رأی فقال له ورقة هذا الناموس الذي نزل الله علی موسیٰ يا ليتني فيها جذعا يا ليتني أکون حيا إذ يخرجک قومک فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم أومخرجي هم قال نعم لم يأت رجل قط بمثل ما جئت به إلا عودي وإن يدرکني يومک أنصرک نصرا مؤزرا ثم لم ينشب ورقة أن توفي وفتر الوحي قال ابن شهاب وأخبرني أبو سلمة بن عبد الرحمن أن جابر بن عبد الله الأنصاري قال وهو يحدث عن فترة الوحي فقال في حديثه بينا أنا أمشي إذ سمعت صوتا من السمائ فرفعت بصري فإذا الملک الذي جائني بحرائ جالس علی کرسي بين السمائ والأرض فرعبت منه فرجعت فقلت زملوني زملوني فأنزل الله تعالی يا أيها المدثر قم فأنذر وربک فکبر  وثيا بک فطهر والرجز فاهجر فحمي الوحي وتتابع تابعه عبد الله بن يوسف وأبو صالح وتابعه هلال بن رداد عن الزهري وقال يونس ومعمر بوادره

یحیی بن بکیر، لیث، عقیل، ابن شہاب، عروہ بن زبیر ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ سب سے پہلی وحی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اترنی شروع ہوئی وہ اچھے خواب تھے، جو بحالت نیند آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیکھتے تھے، چنانچہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب دیکھتے تو وہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہوجاتا، پھر تنہائی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبت ہونے لگی اور غار حرا میں تنہا رہنے لگے اور قبل اس کے کہ گھر والوں کے پاس آنے کا شوق ہو وہاں تحنث کیا کرتے، تحنث سے مراد کئی راتیں عبادت کرنا ہے اور اس کے لئے توشہ ساتھ لے جاتے پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ا کے پاس واپس آتے اور اسی طرح توشہ لے جاتے، یہاں تک کہ جب وہ غار حرا میں تھے، حق آیا، چنانچہ ان کے پاس فرشتہ آیا اور کہا پڑھ، آپ نے فرمایا کہ میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرتے ہیں کہ مجھے فرشتے نے پکڑ کر زور سے دبایا، یہاں تک کہ مجھے تکلیف محسوس ہوئی، پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، پھر دوسری بار مجھے پکڑا اور زور سے دبایا، یہاں تک کہ میری طاقت جواب دینے لگی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ تیسری بار پکڑ کر مجھے زور سے دبایا پھر چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! اپنے رب کے نام سے جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھ اور تیرا رب سب سے بزرگ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دہرایا اس حال  میں کہ آپ کا دل کانپ رہا تھا چنانچہ آپ حضرت خدیجہ بنت خویلد کے پاس آئے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو، تو لوگوں نے کمبل اڑھا دیا، یہاں تک کہ آپ کا ڈر جاتا رہا، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ا سے سارا واقعہ بیان کر کے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو صلہ رحمی کرتے ہیں، ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، محتاجوں کے لئے کماتے ہیں، مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں، پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر ورقہ بن نوفل بن اسید بن عبدالعزی کے پاس گئیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کے چچا زاد بھائی تھے، زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہوگئے تھے اور عبرانی کتاب لکھا کرتے تھے۔چنانچہ انجیل کو عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے، جس قدر اللہ چاہتا، نابینا اور بوڑھے ہوگئے تھے، ان سے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ا نے کہا اے میرے چچا زاد بھائی اپنے بھتیجے کی بات سنو آپ سے ورقہ نے کہا اے میرے بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟ تو جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا تھا، بیان کر دیا، ورقہ نے آپ سے کہا کہ یہی وہ ناموس ہے، جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمایا تھا، کاش میں نوجوان ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا، جب تمہاری قوم تمہیں نکال دے گی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے جواب دیا، ہاں! جو چیز تو لے کر آیا ہے اس طرح کی چیز جو بھی لے کر آیا اس سے دشمنی کی گئی، اگر میں تیرا زمانہ پاؤں تو میں تیری پوری مدد کروں گا، پھر زیادہ زمانہ نہیں گذرا کہ ورقہ کا انتقال ہوگیا، اور وحی کا آنا کچھ دنوں کے لئے بند ہوگیا، ابن شہاب نے کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا کہ جابر بن عبداللہ انصاری وحی کے رکنے کی حدیث بیان کر رہے تھے، تو اس حدیث میں بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان فرما رہے تھے کہ ایک بار میں جا رہا تھا تو آسمان سے ایک آواز سنی، نظر اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ تھا، جو میرے پاس حرا میں آیا تھا ، آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا تھا، مجھ پر رعب طاری ہوگیا اور واپس لوٹ کر میں نے کہا مجھے کمبل اڑھا دو مجھے کمبل اڑھا دو، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، (يٰا اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ  وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ  وَثِيَابَكَ فَطَهِّر ) اے کمبل اوڑھنے والے اٹھ اور لوگوں کو ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑے کو پاک رکھ اور ناپاکی کو چھوڑ دے ، پھر وحی کا سلسلہ گرم ہوگیا اور لگاتار آنے لگی۔ عبداللہ بن یوسف اور ابو صالح نے اس کے متابع حدیث بیان کی ہے اور ہلال بن رواد نے زہری سے متابعت کی ہے، یونس اور معمر نے فوادہ کی جگہ بوادرہ بیان کیا۔

________________________________
حدثنا قتيبة حدثنا ليث عن ابن شهاب أن عمر بن عبد العزيز أخر العصر شيئا فقال له عروة أما إن جبريل قد نزل فصلی أمام رسول الله صلی الله عليه وسلم فقال عمر اعلم ما تقول يا عروة قال سمعت بشير بن أبي مسعود يقول سمعت أبا مسعود يقول سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول نزل جبريل فأمني فصليت معه ثم صليت معه ثم صليت معه ثم صليت معه ثم صليت معه يحسب بأصابعه خمس صلوات
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 481
قتیبہ لیث ابن شہاب سے روایت کرتے ہیں کہ ایک روز عمر بن عبدالعزیز نے عصر کی نماز میں (کچھ) تاخیر کردی تو ان سے عروہ نے کہا کہ جبرائیل علیہ السلام  آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امام بن کر نماز پڑھائی عمر بن عبدالعزیز نے کہا عروہ سوچو کیا کہہ رہے ہو (کیا یہ ممکن ہے کہ جبرائیل علیہ السلام  حضور کے امام بنیں حالانکہ حضور سے افضل نہیں) عروہ نے کہا کہ میں نے بشیر بن ابی مسعود سے انہوں نے ابومسعود سے اور انہوں نے رسول اللہ سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام  علیہ السلام آئے اور میرے امام بنے میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی انگلیوں پر پانچ نمازوں کا شمار کرتے تھے۔

________________________________
حدثنا قيس بن حفص وموسی بن إسماعيل قالا حدثنا عبد الواحد بن زياد حدثنا أبو فروة مسلم بن سالم الهمداني قال حدثني عبد الله بن عيسی سمع عبد الرحمن بن أبي ليلی قال لقيني کعب بن عجرة فقال ألا أهدي لک هدية سمعتها من النبي صلی الله عليه وسلم فقلت بلی فأهدها لي فقال سألنا رسول الله صلی الله عليه وسلم فقلنا يا رسول الله کيف الصلاة عليکم أهل البيت فإن الله قد علمنا کيف نسلم عليکم قال قولوا اللهم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صليت علی إبراهيم وعلی آل إبراهيم إنک حميد مجيد اللهم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی إبراهيم وعلی آل إبراهيم إنک حميد مجيد
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 628
قیس بن حفص موسیٰ بن اسماعیل عبدالواحد بن زیاد ابوقرہ مسلم بن سالم ہمدانی عبداللہ بن عیسیٰ عبدالرحمن بن ابی لیلی سے روایت کرتے ہیں عبدالرحمن کہتے ہیں کہ مجھ سے کعب بن عجرہ ملے تو فرمایا کیا میں تمہیں ایسا تحفہ نہ دوں جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے میں نے عرض کیا ضرور دیجئے انہوں نے کہا ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یعنی اہل بیت پر ہم کس طرح درود پڑھیں؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ تو بتا دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسے درود پڑھیں (اب اہل بیت پر درود کا طریقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بتا دیجئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح پڑھو اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلَی إِبْرَاهِيمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّکَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاهِيمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّکَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔

________________________________
حدثني يحيی حدثنا وکيع عن إسماعيل بن أبي خالد عن عامر عن مسروق قال قلت لعائشة رضي الله عنها يا أمتاه هل رأی محمد صلی الله عليه وسلم ربه فقالت لقد قف شعري مما قلت أين أنت من ثلاث من حدثکهن فقد کذب من حدثک أن محمدا صلی الله عليه وسلم رأی ربه فقد کذب ثم قرأت لا تدرکه الأبصار وهو يدرک الأبصار وهو اللطيف الخبير وما کان لبشر أن يکلمه الله إلا وحيا أو من ورائ حجاب ومن حدثک أنه يعلم ما في غد فقد کذب ثم قرأت وما تدري نفس ماذا تکسب غدا ومن حدثک أنه کتم فقد کذب ثم قرأت يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليک من ربک الآية ولکنه رأی جبريل عليه السلام في صورته مرتين
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2064
یحیی ، وکیع، اسماعیل بن ابی خالد، عامر، مسروق سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا اے ماں! کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار کو دیکھا ہے تو انہوں نے کہا کہ تیری اس بات سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیا تجھے ان تین باتوں کی خبر ہے! کوئی شخص ان میں سے کوئی بات کہے گا تو جھوٹا ہے اگر کوئی شخص تجھ سے کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار کو دیکھا ہے تو وہ جھوٹا ہے پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ اسے آنکھیں نہیں پاسکتی ہیں اور وہ آنکھوں کو پاتا ہے وہ مہربان خبر والا ہے اور کسی بشر کے لائق نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کے طور پر یا پردہ کے پیچھے سے اور جو شخص تجھ سے یہ کہے کہ وہ جانتا ہے کہ کل کیا ہونے والا ہے تو وہ جھوٹا ہے پھر یہ آیت پڑھی کہ کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا اور جو شخص تجھ سے بیان کرے کہ آپ نے کوئی بات چھپائی ہے تو وہ جھوٹا ہے پھر یہ آیت پڑھی کہ ( يٰاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّ غْ مَا اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه ) 5۔ المائدہ : 67) لیکن آپ نے جبرائیل علیہ السلام کو ان کی صورت میں دوبارہ دیکھا۔

________________________________
حدثنا أبو النعمان حدثنا عبد الواحد حدثنا الشيباني قال سمعت زرا عن عبد الله فکان قاب قوسين أو أدنی فأوحی إلی عبده ما أوحی قال حدثنا ابن مسعود أنه رأی جبريل له ست مائة جناح
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2065
ابو النعمان، عبدالواحد شیبانی، زر، حضرت عبداللہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ (آیت) (فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى) 53۔ النجم : 9) کے ضمن میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جبرائیل کو دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے۔

________________________________
حدثنا طلق بن غنام حدثنا زائدة عن الشيباني قال سألت زرا عن قوله تعالی فکان قاب قوسين أو أدنی فأوحی إلی عبده ما أوحی قال أخبرنا عبد الله أن محمدا صلی الله عليه وسلم رأی جبريل له ست مائة جناح
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2066
طلق بن غنام، زائده، شیبانی سے روایت کرتے ہیں انهوں نے کہا که میں ذر سے الله تعالیٰ کے قول’’فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَی فَأَوْحَی إِلَی عَبْدِهِ مَا أَوْحَی" کے متعلق سوال کیا تو انهوں نے کہاکه مجھ سے عبد الله نے بیان کیا که محمد صلی الله علیه وسلم نے جبرائیل کو دیکھا که ان کے چھ سو بازو تھے ۔

________________________________
حدثنا قبيصة حدثنا سفيان عن الأعمش عن إبراهيم عن علقمة عن عبد الله رضي الله عنه لقد رأی من آيات ربه الکبری قال رأی رفرفا أخضر قد سد الأفق
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2067
قبیصہ، سفیان، اعمش، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ (لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى) 53۔ النجم : 18) آپ نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں سے مراد یہ ہے کہ آپ نے منبر رفرف دیکھا تھا جو تمام افق کو ڈھکے ہوئے تھا۔

________________________________
حدثنا مسلم بن إبراهيم حدثنا أبو الأشهب حدثنا أبو الجوزائ عن ابن عباس رضي الله عنهما في قوله اللات والعزی کان اللات رجلا يلت سويق الحاج
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2068

مسلم، ابوالاشہب، ابوالجواز، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ لات اس شخص کو کہتے تھے جو حاجیوں کے لئے ستو گھولتا تھا۔

________________________________
حدثني يعقوب بن إبراهيم بن کثير حدثنا أبو أسامة حدثنا فضيل بن غزوان حدثنا أبو حازم الأشجعي عن أبي هريرة رضي الله عنه قال أتی رجل رسول الله صلی الله عليه وسلم فقال يا رسول الله أصابني الجهد فأرسل إلی نسائه فلم يجد عندهن شيئا فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم ألا رجل يضيفه هذه الليلة يرحمه الله فقام رجل من الأنصار فقال أنا يا رسول الله فذهب إلی أهله فقال لامرأته ضيف رسول الله صلی الله عليه وسلم لا تدخريه شيئا قالت والله ما عندي إلا قوت الصبية قال فإذا أراد الصبية العشائ فنوميهم وتعالي فأطفئي السراج ونطوي بطوننا الليلة ففعلت ثم غدا الرجل علی رسول الله صلی الله عليه وسلم فقال لقد عجب الله عز وجل أو ضحک من فلان وفلانة فأنزل الله عز وجل ويؤثرون علی أنفسهم ولو کان بهم خصاصة
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2099
یعقوب بن ابراہیم بن کثیر، ابواسامہ، فضل بن غزوان، ابوحازم ، اشجعی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے سخت بھوک لگی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی بیویوں کے پاس بھیجا وہاں کوئی چیز نہیں ملی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی ہے جو آج کی رات اس کی مہمانی کرے اللہ اس پر رحم کرے گا انصار میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا میں (مہمانی کروں) گا یا رسول اللہ!چنانچہ وہ اپنے گھر گیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان ہے اس سے کوئی چیز چھپانا نہیں بیوی نے کہا اللہ کی قسم! سوائے بچوں کے کھانے کے اور کچھ نہیں ہے اس نے کہا کہ جب بچہ رات کا کھانا مانگے تو اس کو سلا دینا اور تم آکر چراغ بجھا دینا اور ہم لوگ اس رات کو بھوکے رہیں گے چنانچہ بیوی نے ایسا ہی کیا پھر وہ شخص صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گیا۔ تو آپ نے فرمایا کہ اللہ بزرگ و برتر نے پسند کیا یا فرمایا کہ فلاں مرد اور فلاں عورت پر ہنسا تو اللہ بزرگ و برتر نے یہ آیت نازل فرمائی کہ وہ اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ فاقہ میں ہوں۔

________________________________
حدثنا الحميدي حدثنا سفيان حدثنا عمرو بن دينار قال حدثني الحسن بن محمد بن علي أنه سمع عبيد الله بن أبي رافع کاتب علي يقول سمعت عليا رضي الله عنه يقول بعثني رسول الله صلی الله عليه وسلم أنا والزبير والمقداد فقال انطلقوا حتی تأتوا روضة خاخ فإن بها ظعينة معها کتاب فخذوه منها فذهبنا تعادی بنا خيلنا حتی أتينا الروضة فإذا نحن بالظعينة فقلنا أخرجي الکتاب فقالت ما معي من کتاب فقلنا لتخرجن الکتاب أو لنلقين الثياب فأخرجته من عقاصها فأتينا به النبي صلی الله عليه وسلم فإذا فيه من حاطب بن أبي بلتعة إلی أناس من المشرکين ممن بمکة يخبرهم ببعض أمر النبي صلی الله عليه وسلم فقال النبي صلی الله عليه وسلم ما هذا يا حاطب قال لا تعجل علي يا رسول الله إني کنت امرأ من قريش ولم أکن من أنفسهم وکان من معک من المهاجرين لهم قرابات يحمون بها أهليهم وأموالهم بمکة فأحببت إذ فاتني من النسب فيهم أن أصطنع إليهم يدا يحمون قرابتي وما فعلت ذلک کفرا ولا ارتدادا عن ديني فقال النبي صلی الله عليه وسلم إنه قد صدقکم فقال عمر دعني يا رسول الله فأضرب عنقه فقال إنه شهد بدرا وما يدريک لعل الله عز وجل اطلع علی أهل بدر فقال اعملوا ما شئتم فقد غفرت لکم قال عمرو ونزلت فيه يا أيها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوکم أوليائ قال لا أدري الآية في الحديث أو قول عمرو
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2100

حمیدی، سفیان، عمرو بن دینار، حسن بن محمد بن علی، عبیداللہ بن ابی رافع سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ مجھ کو اور زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا اور فرمایا کہ جاؤ یہاں تک کہ جب تم روضہ خاخ میں پہنچو گے تو ایک سوار عورت ملے گی اس کے پاس ایک خط ہوگا اس کو اس سے لے لینا چنانچہ ہم لوگ اپنے گھوڑے دوڑاتے ہوئے گئے یہاں تک کہ روضہ (خاخ) میں پہنچے تو ہم لوگوں نے اس سوار عورت کو پایا ہم نے کہا کہ خط نکال ورنہ کپڑے اتاردیں گے چنانچہ اس نے اپنی چوٹی سے وہ خط نکالا ہم لوگ اس کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے وہ خط حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین مکہ کے نام لکھا گیا تھا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض امر کے متعلق خبر دی گئی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے حاطب! یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ مجھ پر جلدی نہ کریں میں قریشی نہ تھا بلکہ ان کے حلیفوں میں سے تھا اور آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں ان کی ان کے ساتھ قرابتیں ہیں جس کے سبب سے وہ ان کے گھر اور مال کی نگہداشت کرتے ہیں اور چونکہ نسب کے لحاظ سے میرا ان سے کوئی تعلق نہیں تھا اس لئے میں نے چاہا کہ ان پر کوئی احسان کروں تاکہ وہ میری قرابت کی حفاظت کریں اور میں نے کفر کی بناء پر یا اپنے دین سے پھر جانے کی بناء پر ایسا نہیں کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے سچ کہا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے اجازت دیجئے کہ اس کی گردن اڑا دوں آپ نے فرمایا کہ وہ بدر میں شریک ہوا تھا اور کیا تم کو معلوم ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو دیکھ کر فرمایا تھا کہ جو چاہو کرو میں نے تمہیں بخش دیا ہے عمرو نے کہا کہ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اے ایمان والو! میرے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ سفیان نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ یہ آیت حدیث میں ہے یا عمرو کا قول ہے۔

________________________________
حدثنا علي قال قيل لسفيان في هذا فنزلت لا تتخذوا عدوي وعدوکم أوليائ الآية قال سفيان هذا في حديث الناس حفظته من عمرو ما ترکت منه حرفا وما أری أحدا حفظه غيري
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2101
ہم سے علی بن مدینی نے بیان کیا کہ میں نے سفیان سے آیت (لَا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُم اَوْلِيَا ءَ ) 60۔ الممتحنۃ : 1) کے متعلق پوچھا کہ حاطب کے بارے میں نازل ہوئی تھی تو انہوں نے کہا یہ لوگوں کی حدیث میں ہے میں نے اس کو عمرو سے یاد کیا ہے کہ اس سے میں نے ایک حرف بھی نہیں چھوڑا ہے اور نہ میں سمجھتا ہوں کہ میرے سوا کسی نے اس کو یاد کیا ہوگا۔

________________________________
حدثنا إسحاق حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد حدثنا ابن أخي ابن شهاب عن عمه أخبرني عروة أن عائشة رضي الله عنها زوج النبي صلی الله عليه وسلم أخبرته أن رسول الله صلی الله عليه وسلم کان يمتحن من هاجر إليه من المؤمنات بهذه الآية بقول الله يا أيها النبي إذا جائک المؤمنات يبايعنک إلی قوله غفور رحيم قال عروة قالت عائشة فمن أقر بهذا الشرط من المؤمنات قال لها رسول الله صلی الله عليه وسلم قد بايعتک کلاما ولا والله ما مست يده يد امرأة قط في المبايعة ما يبايعهن إلا بقوله قد بايعتک علی ذلک تابعه يونس ومعمر وعبد الرحمن بن إسحاق عن الزهري وقال إسحاق بن راشد عن الزهري عن عروة وعمرة
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2102
اسحاق، یعقوب بن ابراہیم، ابن شہاب کے برادر زادہ، ابن شہاب، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا زوجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان مومن عورتوں کا جو آپ کے پاس ہجرت کر کے آتیں آیت ( يٰايُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَا ءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَكَ إِلَی قَوْلِهِ غَفُورٌ رَحِيمٌ تک کی بناء پر ) 60۔ الممحنۃ : 12) امتحان کرلیا کرتے تھے۔ عروہ کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ مومن عورتوں میں سے جو اس شرط کا اقرار کر لیتی تو اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ میں نے تجھ سے بیعت کرلی ہے آپ صرف گفتگو کے ذریعہ بیعت کرتے اور اللہ کی قسم! بیعت میں کبھی آپ کے ہاتھ نے کسی عورت کا ہاتھ نہیں چھوا آپ ان عورتوں سے صرف زبانی بیعت کرتے اور فرماتے کہ میں نے تجھ سے اس پر بیعت کی یونس، معمر اور عبدالرحمن بن اسحاق نے زہری سے اس کی متابعت میں روایت کی اور اسحاق بن راشد نے بواسطہ زہری، عروہ اور عمرہ سے نقل کیا ہے۔

________________________________
حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري قال حدثني أبو سلمة بن عبد الرحمن أن عائشة رضي الله عنها زوج النبي صلی الله عليه وسلم قالت قال رسول الله صلی الله عليه وسلم يا عائش هذا جبريل يقرئک السلام قلت وعليه السلام ورحمة الله قالت وهو يری ما لا نری
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1153
ابو الیمان، شعیب، زہری، ابوسلمہ، عبدالرحمن، حضرت عائشہ زوجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ یہ جبرائیل ہیں تمہیں سلام کہتے ہیں میں نے کہا وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ وہ چیز دیکھتے تھے جو ہم لوگوں کو نظر نہیں آتی تھی۔

________________________________
حدثنا قتيبة بن سعيد حدثنا ليث عن ابن شهاب عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة عن ابن عباس أنه قال استفتی سعد بن عبادة الأنصاري رسول الله صلی الله عليه وسلم في نذر کان علی أمه توفيت قبل أن تقضيه فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم اقضه عنها وقال بعض الناس إذا بلغت الإبل عشرين ففيها أربع شياه فإن وهبها قبل الحول أو باعها فرارا واحتيالا لإسقاط الزکاة فلا شيئ عليه وکذلک إن أتلفها فمات فلا شيئ في ماله
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1885
قتیبہ بن سعید، لیث، ابن شہاب، عبیداللہ بن عتبہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں سعد بن عبادہ انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس نذر کے متعلق دریافت کیا جو اس کی ماں کے ذمہ تھی اور وہ اس کے ادا کرنے سے پہلے مر گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی طرف سے ادا کرو، اور بعض لوگوں نے کہا کہ اگر اونٹوں کی تعداد بیس ہوجائے تو اس صورت میں چار بکریاں ہیں، پس اگر ایک سال پورا ہونے سے پہلے زکوۃ کو ساقط کرنے کے لئے حیلہ جوئی کرتے ہوئے کسی کو ہبہ کر دے یا بیچ دے تو اس پر کچھ نہیں اسی طرح اگر اس کو ضائع کردے اور مرجائے تو اس کے مال میں کچھ نہیں ہے۔

________________________________
حدثني أبو الطاهر أحمد بن عمرو بن عبد الله بن عمرو بن سرح أخبرنا ابن وهب قال أخبرني يونس عن ابن شهاب قال حدثني عروة بن الزبير أن عاشة زوج النبي صلی الله عليه وسلم أخبرته أنها قالت کان أول ما بد به رسول الله صلی الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصادقة في النوم فکان لا يری رؤيا إلا جات مثل فلق الصبح ثم حبب إليه الخلا فکان يخلو بغار حرا يتحنث فيه وهو التعبد الليالي أولات العدد قبل أن يرجع إلی أهله ويتزود لذلک ثم يرجع إلی خديجة فيتزود لمثلها حتی فجه الحق وهو في غار حرا فجاه الملک فقال اقرأ قال ما أنا بقار قال فأخذني فغطني حتی بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال اقرأ قال قلت ما أنا بقار قال فأخذني فغطني الثانية حتی بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال أقرأ فقلت ما أنا بقار فأخذني فغطني الثالثة حتی بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال اقرأ باسم ربک الذي خلق خلق الإنسان من علق اقرأ وربک الأکرم الذي علم بالقلم علم الإنسان ما لم يعلم فرجع بها رسول الله صلی الله عليه وسلم ترجف بوادره حتی دخل علی خديجة فقال زملوني زملوني فزملوه حتی ذهب عنه الروع ثم قال لخديجة أي خديجة ما لي وأخبرها الخبر قال لقد خشيت علی نفسي قالت له خديجة کلا أبشر فوالله لا يخزيک الله أبدا والله إنک لتصل الرحم وتصدق الحديث وتحمل الکل وتکسب المعدوم وتقري الضيف وتعين علی نواب الحق فانطلقت به خديجة حتی أتت به ورقة بن نوفل بن أسد بن عبد العزی وهو ابن عم خديجة أخي أبيها وکان امرأ تنصر في الجاهلية وکان يکتب الکتاب العربي ويکتب من الإنجيل بالعربية ما شا الله أن يکتب وکان شيخا کبيرا قد عمي فقالت له خديجة أي عم اسمع من ابن أخيک قال ورقة بن نوفل يا ابن أخي ماذا تری فأخبره رسول الله صلی الله عليه وسلم خبر ما رآه فقال له ورقة هذا الناموس الذي أنزل علی موسی صلی الله عليه وسلم يا ليتني فيها جذعا يا ليتني أکون حيا حين يخرجک قومک قال رسول الله صلی الله عليه وسلم أو مخرجي هم قال ورقة نعم لم يأت رجل قط بما جت به إلا عودي وإن يدرکني يومک أنصرک نصرا مؤزرا
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 403
ابوطاہر، احمد بن عمرو بن عبداللہ بن عمرو بن سرح، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کا آغاز اس طرح سے ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خواب سچے ہونے لگے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو بھی خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہوتا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تنہائی پسند ہونے لگی، غار حرا میں تنہا تشریف لے جاتے کئی کئی رات گھر میں تشریف نہ لاتے اور عبادت کرتے رہتے (دین ابراہیمی کے مطابق) اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان رکھتے پھر ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ا کے پاس واپس تشریف لاتے، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ا پھر اسی طرح کھانے پینے کا سامان پکا دیتیں یہاں تک کہ اچانک غار حرا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی اتری فرشتہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آکر کہا پڑھئے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتہ نے مجھے پکڑ کر اتنا دبایا کہ میں تھک گیا پھر مجھے چھوڑ کر فرمایا پڑھیے! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتہ نے دوبارہ مجھے پکڑ کر اتنا دبایا کہ میں تھک گیا اس کے بعد مجھے چھوڑ دیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فرشتہ نے پھر تیسری دفعہ مجھے پکڑ کر اتنا دبایا کہ میں تھک گیا پھر مجھے چھوڑ کر کہا (اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ) پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا انسان کو گوشت کے لوتھڑے سے، پڑھ! تیرا پروردگار بڑی عزت والا ہے جس نے قلم سے سکھایا اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس گھر تشریف لائے تو وحی کے جلال سے آپ کے شانہ مبارک اور گردن کے درمیان کا گوشت کانپ رہا تھا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لا کر فرمایا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو مجھے کپڑا اوڑھا دو! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کپڑا اوڑھا دیا گیا یہاں تک کہ جب گھبراہٹ ختم ہوگئی تو فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ا فرمانے لگیں کہ ہرگز نہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش رہیں، اللہ کی قسم اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی رسو انہیں کرے گا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو صلہ رحمی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، یتیموں مسکینوں اور کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور ناداروں کو دینے کی خاطر کماتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور پریشان لوگوں کی پریشانی میں لوگوں کے کام آتے ہیں، اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزی کے پاس لے گئیں، ورقہ دور جاہلیت میں اسلام سے قبل نصرانی ہوگئے تھے، وہ عربی لکھنا جانتے تھے اور انجیل کو عربی زبان میں جتنا اللہ کو منظور ہوتا لکھتے تھے یہ بہت بوڑھے اور نابینا ہوگئے تھے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ورقہ سے کہا اے چچا! (ان کی بزرگی کی وجہ سے اس طرح خطاب کیا اصل میں وہ چچا زاد بھائی تھے) اپنے بھتیجے کی بات سنئے ورقہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرکے کہا اے بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا اس سے آگاہ کیا، ورقہ کہنے لگا یہ تو وہ ناموس ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا کاش میں اس وقت جوان ہوتا اور اس وقت تک زندہ رہتا جب تیری قوم تجھے نکالے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا وہ مجھے نکال دیں گے ورقہ نے کہا ہاں جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا نبی بن کر دنیا میں آیا لوگ اس کے دشمن ہو گئے اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو میں تمہاری بھرپور مدد کروں گا۔

________________________________
حدثني محمد بن رافع حدثنا عبد الرزاق أخبرنا معمر قال قال الزهري وأخبرني عروة عن عاشة أنها قالت أول ما بد به رسول الله صلی الله عليه وسلم من الوحي وساق الحديث بمثل حديث يونس غير أنه قال فوالله لا يحزنک الله أبدا وقال قالت خديجة أي ابن عم اسمع من ابن أخيک
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 404
محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، زہری، عروہ، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ابتدا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کا آغاز اس طرح سے ہوا اور پھر اسی طرح حدیث بیان کی جو گزر گئی، لیکن اس روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ اللہ کی قسم اللہ کبھی آپ کو رنجیدہ نہیں کرے گا اور راوی کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ا نے ورقہ سے کہا اے چچا کے لڑکے اپنے بھتیجے ( اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سنو۔

________________________________
حدثني عبد الملک بن شعيب بن الليث قال حدثني أبي عن جدي قال حدثني عقيل بن خالد قال ابن شهاب سمعت عروة بن الزبير يقول قالت عاشة زوج النبي صلی الله عليه وسلم فرجع إلی خديجة يرجف فؤاده واقتص الحديث بمثل حديث يونس ومعمر ولم يذکر أول حديثهما من قوله أول ما بد به رسول الله صلی الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصادقة وتابع يونس علی قوله فوالله لا يخزيک الله أبدا وذکر قول خديجة أي ابن عم اسمع من ابن أخيک
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 405
عبدالملک، ابن شعیب، ابن لیث، عقیل بن خالد، ابن شہاب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن زبیر سے سنا کہتے تھے کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ا کے پاس جب واپس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل کانپ رہا تھا پھر اسی طرح حدیث بیان کی جو گزر چکی لیکن اس حدیث میں یہ نہیں کہ شروع میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کا آغاز سچے خواب سے ہوا اور دوسری روایت کی طرح اس روایت میں ہے کہ اللہ کی قسم اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی رسوا نہیں کرے گا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ا کا یہ قول نقل کیا کہ اے چچا کے بیٹے اپنے بھیجے کی بات سنو۔

________________________________
حدثني أبو الطاهر أخبرنا ابن وهب قال حدثني يونس قال قال ابن شهاب أخبرني أبو سلمة بن عبد الرحمن أن جابر بن عبد الله الأنصاري وکان من أصحاب رسول الله صلی الله عليه وسلم کان يحدث قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم وهو يحدث عن فترة الوحي قال في حديثه فبينا أنا أمشي سمعت صوتا من السما فرفعت رأسي فإذا الملک الذي جاني بحرا جالسا علی کرسي بين السما والأرض قال رسول الله صلی الله عليه وسلم فجثت منه فرقا فرجعت فقلت زملوني زملوني فدثروني فأنزل الله تبارک وتعالی يا أيها المدثر قم فأنذر وربک فکبر وثيابک فطهر والرجز فاهجر وهي الأوثان قال ثم تتابع الوحي
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 406
ابوطاہر، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف، جابر بن عبداللہ انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے ایک انصاری حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحی کے رک جانے کے زمانہ کا تذکرہ فرما رہے تھے کہ میں ایک مرتبہ جا رہا تھا کہ میں نے آسمان سے ایک آواز سنی میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ حضرت جبرائیل ہے جو غار حرا میں میرے پاس وحی لے کر آیا تھا آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں یہ دیکھ کر گھبرا گیا مجھ پر ہیبت طاری ہوگئی پھر میں لوٹ کر گھر آیا تو میں نے کہا مجھے کپڑا اوڑھا دو مجھے کپڑا اوڑھا دو، تو مجھے گھر والوں نے کپڑا اوڑھا دیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ سورت (يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ وَثِيَابَکَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ وَهِيَ الْأَوْثَانُ قَالَ ثُمَّ تَتَابَعَ الْوَحْيُ) اے کپڑے میں لپٹنے والے اٹھو اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو اور بتوں سے علیحدہ رہو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پھر برابر وحی آنے لگی۔

________________________________
حدثني عبد الملک بن شعيب بن الليث قال حدثني أبي عن جدي قال حدثني عقيل بن خالد عن ابن شهاب قال سمعت أبا سلمة بن عبد الرحمن يقول أخبرني جابر بن عبد الله أنه سمع رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول ثم فتر الوحي عني فترة فبينا أنا أمشي ثم ذکر مثل حديث يونس غير أنه قال فجثت منه فرقا حتی هويت إلی الأرض قال و قال أبو سلمة والرجز الأوثان قال ثم حمي الوحي بعد وتتابع
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 407
عبدالملک بن شعیب، ابن لیث، عقیل بن خالد، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، جابر بن عبداللہ ایک دوسری سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے لیکن اس روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں ڈر کی وجہ سے سہم گیا یہاں تک کہ میں زمین پر گر پڑا اور ابوسلمہ کہتے ہیں کہ وَالرُّجْزَ سے مراد بت ہیں پھر برابر لگاتار وحی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

________________________________
حدثني محمد بن رافع حدثنا عبد الرزاق أخبرنا معمر عن الزهري بهذا الإسناد نحو حديث يونس وقال فأنزل الله تبارک وتعالی يا أيها المدثر إلی قوله والرجز فاهجر قبل أن تفرض الصلاة وهي الأوثان وقال فجثت منه کما قال عقيل
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 408
محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، زہری، یونس ایک دوسری سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے اس میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرض نماز سے پہلے یہ آیات مبارکہ (يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ سے فَاھجُر) تک نازل فرمائیں۔

________________________________
حدثنا زهير بن حرب حدثنا الوليد بن مسلم حدثنا الأوزاعي قال سمعت يحيی يقول سألت أبا سلمة أي القرآن أنزل قبل قال يا أيها المدثر فقلت أو اقرأ فقال سألت جابر بن عبد الله أي القرآن أنزل قبل قال يا أيها المدثر فقلت أو اقرأ قال جابر أحدثکم ما حدثنا رسول الله صلی الله عليه وسلم قال جاورت بحرا شهرا فلما قضيت جواري نزلت فاستبطنت بطن الوادي فنوديت فنظرت أمامي وخلفي وعن يميني وعن شمالي فلم أر أحدا ثم نوديت فنظرت فلم أر أحدا ثم نوديت فرفعت رأسي فإذا هو علی العرش في الهوا يعني جبريل عليه السلام فأخذتني رجفة شديدة فأتيت خديجة فقلت دثروني فدثروني فصبوا علي ما فأنزل الله عز وجل يا أيها المدثر قم فأنذر وربک فکبر وثيابک فطهر
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 409
زہیر بن حرب، ولید، ابن مسلم، اوزاعی، یحیی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ قرآن کی سب سے پہلے کون سی آیات نازل ہوئیں فرمایا (يٰايُّهَا الْمُدَّثِّرُ) 74۔ المدثر : 1) میں نے کہا یا (اقْرَأْ) تو وہ کہنے لگے کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ قرآن میں سب سے پہلے کونسی آیات نازل ہوئیں تو انہوں نے فرمایا (يٰايُّهَا الْمُدَّثِّرُ) 74۔ المدثر : 1) میں نے کہا یا (اقْرَأْ) تو حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سے وہ حدیث بیان کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے بیان کی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں غار حرا میں ایک مہینہ تک ٹھہرا رہا جب میری ٹھہر نے کی مدت ختم ہوگئی تو میں وادی میں اتر کر چلنے لگا تو مجھے آوازی دی گئی میں نے اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں دیکھا تو مجھے کوئی نظر نہ آیا اس کے بعد پھر آواز دی گئی اور میں نے نظر ڈالی تو مجھے کوئی نظر نہ آیا اس کے بعد مجھے پھر آواز دی گئی اور میں نے اپنا سر اٹھایا تو ہوا میں ایک درخت پر حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا مجھ پر اس مشاہدہ سے کپکپی طاری ہوگئی اور میں نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ا کے پاس آکر کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو انہوں نے مجھے کپڑا اوڑھا دیا اور مجھ پر پانی ڈالا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں (يٰايُّهَا الْمُدَّثِّرُ) 74۔ المدثر : 1)

________________________________
حدثنا محمد بن المثنی حدثنا عثمان بن عمر أخبرنا علي بن المبارک عن يحيی بن أبي کثير بهذا الإسناد وقال فإذا هو جالس علی عرش بين السما والأرض
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 410
محمد بن مثنی، عثمان بن عمر، علی بن مبارک، یحیی بن ابی کثیر ایک دوسری سند کی روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آسماں و زمین کے درمیان عرش پر بیٹھے ہوئے تھے۔

________________________________
حدثنا عبد بن حميد أخبرنا عبد الرزاق حدثنا معمر عن الزهري عن أبي سلمة عن جابر بن عبد الله قال سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم وهو يحدث عن فترة الوحي فقال في حديثه بينما أنا أمشي سمعت صوتا من السما فرفعت رأسي فإذا الملک الذي جاني بحرا جالس علی کرسي بين السما والأرض فجثثت منه رعبا فرجعت فقلت زملوني زملوني فدثروني فأنزل الله عز وجل يا أيها المدثر قم فأنذر إلی قوله والرجز فاهجر قبل أن تفرض الصلاة قال أبو عيسی هذا حديث حسن صحيح وقد رواه يحيی بن أبي کثير عن أبي سلمة بن عبد الرحمن عن جابر وأبو سلمة اسمه عبد الله
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1276
عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، ابوسلمہ، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وحی کے متعلق بتاتے ہوئے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں چلا جا رہا تھا کہ آسمان سے ایک آواز آتی سنائی دی میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ وہی فرشتہ ہے جو میرے پاس غارحرا میں آیا تھا ۔ وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ میں اس سے ڈر گیا اور لوٹ آیا۔ پھر میں نے کہا کہ مجھے کمبل اوڑھاؤ۔ پھر مجھے کمبل اوڑھا دیا گیا اور یہ آیات نازل ہوئیں (يٰايُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْĄ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ Ǽ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ Ć وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ Ĉ ) 74۔ المدثر : 1تا5) (اے لحاف میں لیٹنے والے کھڑا ہو پھر ڈر سنا دے اور اپنے رب کی بڑائی بول اور اپنے کپڑے پاک رکھ اور گندگی سے دور رہ۔ المدثر۔) یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس حدیث کو یحیی بن ابی کیثر، ابوسلمہ بن  عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بھی نقل کرتے ہیں۔

________________________________
حدثنا الأنصاري إسحق بن موسی حدثنا يونس بن بکير أخبرنا محمد بن إسحق حدثني الزهري عن عروة عن عاشة أنها قالت أول ما ابتدي به رسول الله صلی الله عليه وسلم من النبوة حين أراد الله کرامته ورحمة العباد به أن لا يری شيا إلا جات مثل فلق الصبح فمکث علی ذلک ما شا الله أن يمکث وحبب إليه الخلوة فلم يکن شي أحب إليه من أن يخلو قال أبو عيسی هذا حديث حسن صحيح غريب
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1598
انصاری اسحاق بن موسیٰ ، یونس بن بکیر، محمد بن اسحاق، زہری، عروة، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ابتدائے نبوت میں جب اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرامت اور رحمت ظاہر کرنے کا ارادہ فرمایا تو ایسا ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر خواب روز روشن کی طرح واضح اور سچا ہوتا اور پھر جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا یہ حال رہا۔ ان دنوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلوت (تنہائی) کو ہر چیز سے زیادہ پسند کیا کرتے تھے۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

0 comments:

Post a Comment