صحیح بخاری
جلد اول:حدیث نمبر 6 حدیث مرفوع مکررات 17 متفق علیہ 14
حدثنا أبو اليمان الحکم بن نافع قال أخبرنا شعيب عن الزهري قال أخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود أن عبد الله بن عباس أخبره أن أبا سفيان بن حرب أخبره أن هرقل أرسل إليه في رکب من قريش وکانوا تجارا بالشأم في المدة التي کان رسول الله صلی الله عليه وسلم ماد فيها أبا سفيان وکفار قريش فأتوه وهم بإيليائ فدعاهم في مجلسه وحوله عظمائ الروم ثم دعاهم ودعاترجمانه فقال أيکم أقرب نسبا بهذا الرجل الذي يزعم أنه نبي فقال أبو سفيان فقلت أنا أقربهم نسبا فقال أدنوه مني وقربوا أصحابه فاجعلوهم عند ظهره ثم قال لترجمانه قل لهم إني سائل هذا عن هذا الرجل فإن کذبني فکذبوه فوالله لولا الحيائ من أن يأثروا علي کذبا لکذبت عنه ثم کان أول ما سألني عنه أن قال کيف نسبه فيکم قلت هو فينا ذو نسب قال فهل قال هذا القول منکم أحد قط قبله قلت لا قال فهل کان من آبائه من ملک قلت لا قال فأشراف الناس اتبعوه أم ضعفاؤهم قلت بل ضعفاؤهم قال أيزيدون أم ينقصون قلت بل يزيدون قال فهل يرتد أحد منهم سخطة لدينه بعد أن يدخل فيه قلت لا قال فهل کنتم تتهمونه بالکذب قبل أن يقول ما قال قلت لا قال فهل يغدر قلت لا ونحن منه في مدة لا ندري ما هو فاعل فيها قال ولم تمکني کلمة أدخل فيها شيئا غير هذه الکلمة قال فهل قاتلتموه قلت نعم قال فکيف کان قتالکم إياه قلت الحرب بيننا وبينه سجال ينال منا وننال منه قال ماذا يأمرکم قلت يقول اعبدوا الله وحده ولا تشرکوا به شيئا واترکوا ما يقول آباؤکم ويأمرنا بالصلاة والصدق والعفاف والصلة فقال للترجمان قل له سألتک عن نسبه فذکرت أنه فيکم ذو نسب وکذلک الرسل تبعث في نسب قومها وسألتک هل قال أحد منکم هذا القول فذکرت أن لا قلت لو کان أحد قال هذا القول قبله لقلت رجل يأتسي بقول قيل قبله وسألتک هل کان من آبائه من ملک فذکرت أن لا فقلت فلو کان من آبائه من ملک قلت رجل يطلب ملک أبيه وسألتک هل کنتم تتهمونه بالکذب قبل أن يقول ما قال فذکرت أن لا فقد أعرف أنه لم يکن ليذر الکذب علی الناس ويکذب علی الله وسألتک أشراف الناس اتبعوه أم ضعفاؤهم فذکرت أن ضعفائهم اتبعوه وهم أتباع الرسل وسألتک أيزيدون أم ينقصون فذکرت أنهم يزيدون وکذلک أمر الإيمان حتی يتم وسألتک أيرتد أحد سخطة لدينه بعد أن يدخل فيه فذکرت أن لا وکذلک الإيمان حين تخالط بشاشته القلوب وسألتک هل يغدر فذکرت أن لا وکذلک الرسل لا تغدر وسألتک بما يأمرکم فذکرت أنه يأمرکم أن تعبدوا الله ولا تشرکوا به شيئا وينهاکم عن عبادة الأوثان ويأمرکم بالصلاة والصدق والعفاف فإن کان ما تقول حقا فسيملک موضع قدمي هاتين وقد کنت أعلم أنه خارج ولم أکن أظن أنه منکم فلو أني أعلم أني أخلص إليه لتجشمت لقائه ولو کنت عنده لغسلت عن قدميه ثم دعا بکتاب رسول الله صلی الله عليه وسلم الذي بعث به مع دحية الکلبي إلی عظيم بصری فدفعه عظيم بصری إلی هرقل فقرأه فإذا فيه بسم الله الرحمن الرحيم من محمد عبد الله ورسوله إلی هرقل عظيم الروم سلام علی من اتبع الهدی أما بعد فإني أدعوک بدعاية الإسلام أسلم تسلم يؤتک الله أجرک مرتين فإن توليت فإن عليک إثم اليريسيين و يا أهل الکتاب تعالوا إلی کلمة سوائ بيننا وبينکم أن لا نعبد إلا الله ولا نشرک به شيئا ولا يتخذ بعضنا بعضا أربابا من دون الله فإن تولوا فقولوا اشهدوا بأنا مسلمون قال أبو سفيان فلما قال ما قال وفرغ من قرائة الکتاب کثر عنده الصخب فارتفعت الأصوات وأخرجنا فقلت لأصحابي حين أخرجنا لقد أمر أمر ابن أبي کبشة إنه يخافه ملک بني الأصفر فما زلت موقنا أنه سيظهر حتی أدخل الله علي الإسلام وکان ابن الناطور صاحب إيليائ وهرقل سقف علی نصاری الشأم يحدث أن هرقل حين قدم إيليائ أصبح يوما خبيث النفس فقال بعض بطارقته قد استنکرنا هيأتک قال ابن الناطور وکان هرقل حزائ ينظر في النجوم فقال لهم حين سألوه إني رأيت الليلة حين نظرت في النجوم ملک الختان قد ظهر فمن يختتن من هذه الأمة قالوا ليس يختتن إلا اليهود فلا يهمنک شأنهم واکتب إلی مداين ملکک فيقتلوا من فيهم من اليهود فبينا هم علی أمرهم أتي هرقل برجل أرسل به ملک غسان يخبر عن خبر رسول الله صلی الله عليه وسلم فلما استخبره هرقل قال اذهبوا فانظروا أمختتن هو أم لا فنظروا إليه فحدثوه أنه مختتن وسأله عن العرب فقال هم يختتنون فقال هرقل هذا ملک هذه الأمة قد ظهر ثم کتب هرقل إلی صاحب له برومية وکان نظيره في العلم وسار هرقل إلی حمص فلم يرم حمص حتی أتاه کتاب من صاحبه يوافق رأي هرقل علی خروج النبي صلی الله عليه وسلم وأنه نبي فأذن هرقل لعظمائ الروم في دسکرة له بحمص ثم أمر بأبوابها فغلقت ثم اطلع فقال يا معشر الروم هل لکم في الفلاح والرشد وأن يثبت ملککم فتبايعوا هذا النبي فحاصوا حيصة حمر الوحش إلی الأبواب فوجدوها قد غلقت فلما رأی هرقل نفرتهم وأيس من الإيمان قال ردوهم علي وقال إني قلت مقالتي آنفا أختبر بها شدتکم علی دينکم فقد رأيت فسجدوا له ورضوا عنه فکان ذلک آخر شأن هرقل قال أبوعبد الله رواه صالح بن کيسان ويونس ومعمر عن الزهري
ابوالیمان ، حکم بن نافع، شعیب، زہری، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ، ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سفیان بن حرب نے بیان کیا کہ ہرقل نے ان کے پاس ایک شخص کو بھیجا (اور وہ اس وقت قریش کے چند سرداروں میں بیٹھے ہوئے تھے اور وہ لوگ شام میں تاجر کی حیثیت سے گئے تھے (یہ واقعہ اس زمانے میں ہوا) جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوسفیان اور دیگر کفار قریش سے ایک محدود عہد کیا تھا، غرض! سب قریش ہرقل کے پاس آئے، یہ لوگ اس وقت ایلیا میں تھے، تو ہرقل نے ان کو اپنے پاس دربار میں طلب کیا، اور اس کے گرد سرداران روم (بیٹھے ہوئے) تھے، پھر ان (سب قریشیوں) کو اس نے (اپنے قریب بلایا) اپنے ترجمان کو طلب کیا قریشیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم میں سب سے زیادہ اس شخص کا قریب النسب کون ہے، جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں، میں نے کہا میں ان سب سے زیادہ ان کا قریبی رشتہ دار ہوں، یہ سن کر ہرقل نے کہا کہ ابوسفیان کو میرے قریب کردو اور اس کے ساتھیوں کو بھی اس کے قریب رکھو، اور ان کو ابوسفیان کی پس پشت کھڑا کردو، پھر ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص کا حال پوچھتا ہوں (جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے اگر مجھ سے جھوٹ بیان کرے، تو تم فورا اس کی تکذیب کر دینا (ابوسفیان کہتے ہیں کہ) اللہ کی قسم اگر مجھے اس بات کی غیرت نہ ہوتی کہ لوگ میرے اوپر جھوٹ بولنے کا الزام لگائیں گے تو یقینا میں آپ کی نسبت غلط باتیں بیان کر دیتا، غرض سب سے پہلے جو ہرقل نے مجھ سے پوچھا، وہ یہ تھا کہ اس نے کہا کہ اس کا نسب تم لوگوں میں کیسا ہے؟ میں نے کہا وہ ہم میں بڑے نسب والے ہیں، پھر ہرقل نے کہا کہ کیا تم میں سے کسی نے اس سے پہلے بھی اس بات (نبوت) کا دعوی کیا ہے؟ میں نے کہا نہیں (پھر ہرقل نے) کہا، کہ کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ گذرا ہے؟ میں نے کہا نہیں (پھر ہرقل نے) کہا کہ امیر لوگ ان کی پیروی کر رہے ہیں یا کمزور؟ میں نے کہا نہیں، بلکہ کمزور (پھر) ہرقل بولا آیا ان کے پیروکار (روزبروز) بڑھتے جاتے ہیں یا گھٹتے جاتے ہیں، میں نے کہا (کم نہیں ہوتے بلکہ) زیادہ ہوتے جاتے ہیں، ہرقل بولا، آیا ان میں سے کوئی شخص ان کے دین میں داخل ہونے کے بعد دین کی شدت کے باعث اس دین سے خارج بھی ہوجاتا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں (پھر ہرقل نے) کہا کہ کیا وہ کبھی وعدہ خلافی کرتے ہیں؟ میں نے کہا نہیں اور اب ہم ان کی مہلت میں ہیں ہم نہیں جانتے کہ وہ اس (مہلت کے زمانہ) میں کیا کریں گے (وعدہ خلافی یا ایفائے عہد) ، ابوسفیان کہتے ہیں کہ سوائے اس کلمہ کے مجھے اور کوئی موقع نہ ملا کہ میں کوئی بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات میں داخل کر دیتا، ہرقل نے کہا آیا تم نے (کبھی) اس سے جنگ کی ہے؟ میں نے کہا ہاں، تو بولا تمہاری جنگ ان سے کیسی رہتی ہے، میں نے کہا کہ لڑائی ہمارے اور ان کے درمیان ڈول (کے مثل) رہتی ہے، کہ کبھی وہ ہم سے لے لیتے ہیں اور کبھی ہم ان سے لے لیتے ہیں (کبھی ہم فتح پاتے ہیں اور کبھی وہ) ہرقل نے پوچھا کہ وہ تم کو کیا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور شرک کی باتیں جو تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے چھوڑ دو، اور ہمیں نماز پڑھنے اور سچ بولنے اور پرہیزگاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اس کے بعد ہرقل نے ترجمان سے کہا کہ ابوسفیان سے کہہ دے کہ میں نے تم سے ان کا نسب پوچھا تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہارے درمیان میں اعلی نسب والے ہیں اور تمام پیغمبر اپنی قوم کے نسب میں اسی طرح (عالی نسب) مبعوث ہوا کرتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا یہ بات (اپنی نبوت کا دعوی) تم میں سے کسی اور نے بھی کیا تھا، تو تم نے بیان کیا کہ نہیں میں نے (اپنے دل میں) سمجھ لیا کہ اگر یہ بات ان سے پہلے کوئی کہہ چکا ہو تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک شخص ہے جو اس قول کی تقلید کرتے ہیں جو ان سے پہلے کہا جا چکا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ تھا، تو تم نے بیان کیا کہ نہیں، پس میں نے (اپنے دل میں) سمجھ لیا کہ ان کے باپ دادا میں سے کوئی بادشاہ ہوا ہوگا، تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک شخص ہیں جو اپنے باپ دادا کا ملک حاصل کرنا چاہتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا اس سے پہلے کہ انہوں نے یہ بات کہی ہے ان پر کبھی جھوٹ کی تہمت لگائی گئی ہے، تو تم نے کہا کہ نہیں، پس (اب) میں یقینا جانتا ہوں کہ (کوئی شخص) ایسا نہیں ہو سکتا کہ لوگوں پر جھوٹ نہ بولے اور اللہ پر جھوٹ بولے اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا بڑے لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے، تو تم نے کہا کہ کمزور لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے، (دراصل) تمام پیغمبروں کے پیرو یہی لوگ (ہوتے رہے) ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے پیرو زیادہ ہوتے جاتے ہیں یا کم ہوتے جاتے ہیں، تو تم نے بیان کیا کہ وہ زیادہ ہوتے جاتے ہیں (درحقیقت) ایمان کا کمال کو پہنچنے تک یہی حال ہوتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص اس کے بعد ان کے دین میں داخل ہوجائے ان کے دین سے ناخوش ہو کر (دین سے) پھر بھی جاتا ہے؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں اور ایمان کی یہی صورت ہے، جب کہ اس کی بشاشت دلوں میں بیٹھ جائے، اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا وہ وعدہ خلافی کرتے ہیں تو تم نے بیان کیا کہ نہیں (بات یہ ہے کہ) اسی طرح تمام پیغمبر وعدہ خلافی نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا کہ وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہیں یہ حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کی شریک نہ کرو اور تمہیں بتوں کی پرستش سے منع کرتے ہیں اور تمہیں نماز پڑھنے اور سچ بولنے اور پرہیزگاری کا حکم دیتے ہیں، پس اگر تمہاری کہی ہوئی بات سچ ہے تو عنقریب وہ میرے ان قدموں کی جگہ کے مالک ہو جائیں گے اور بے شک میں (کتب سابقہ سے) جانتا تھا کہ وہ ظاہر ہونے والے ہیں، مگر میں یہ نہ جانتا تھا کہ وہ تم میں سے ہوں گے، پس اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکوں گا، تو یقینا میں ان سے ملنے کا بڑا اہتمام کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو یقینا میں ان کے پیروں کو دھوتا، پھر ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا (مقدس) خط جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دحیہ کلبی کے ہمراہ امیر بصری کے پاس بھیجا تھا اور امیر بصری نے اس کو ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا، منگوایا، اور اس کو پڑھوایا، تو اس میں یہ مضمون تھا اللہ نہایت مہربان رحم کرنے والے کے نام سے (یہ خط ہے) اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے بادشاہ روم کی طرف، اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے، اس کے بعد واضح ہو کہ میں تم کو اسلام کی طرف بلاتا ہوں، اسلام لاؤ گے تو (قہرالہی) سے بچ جاؤ گے اور اللہ تمہیں تمہارا دو گنا ثواب دے گا اگر تم (میری دعوت سے) منہ پھیرو گے تو بلاشبہ تم پر (تمہاری) تمام رعیت (کے ایمان نہ لانے) کا گناہ ہوگا اور اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان میں مشترک ہے یعنی یہ کہ ہم اور تم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا پروردگار بنائے، اللہ فرماتا ہے کہ پھر اگر اہل کتاب اس سے اعراض کریں تو تم کہہ دنیا کہ اس بات کے گواہ رہو کہ ہم اللہ کی اطاعت کرنے والے ہیں، ابوسفیان کہتے ہیں کہ جب ہرقل نے جو کچھ کہا کہہ چکا اور (آپکا) خط پڑھنے سے فارغ ہوا تو اس کے ہاں شور زیادہ ہوا، آوازیں بلند ہوئیں اور ہم لوگ (وہاں سے) نکال دیئے گئے، تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ (دیکھو تو) ابوکبشہ کے بیٹے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام ایسا بڑھ گیا کہ اس سے بنی اصفر (روم) کا بادشاہ خوف رکھتا ہے، پس اس وقت سے مجھے ہمیشہ کے لئے اس کا یقین ہوگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ضرور غالب ہوجائیں گے، یہاں تک کہ اللہ نے مجھے اسلام میں داخل فرمایا اور ابن ناطور ایلیا کا حاکم تھا اور ہرقل شام کے نصرانیوں کا سردار تھا، بیان کیا جاتا ہے کہ ہرقل جب ایلیا میں آیا تو ایک دن صبح کو بہت پریشان خاطر اٹھا، تو اس کے بعض خواص نے کہا کہ ہم (اس وقت) آپ کی حالت خراب پاتے ہیں؟ ابن ناطور کہتا ہے کہ ہرقل کاہن تھا، نجوم میں مہارت رکھتا تھا اس نے اپنے خواص سے جب کہ انہوں نے پوچھا، یہ کہا کہ میں نے رات کو جب نجوم میں نظر کی، تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والا بادشاہ غالب ہوگیا تو (دیکھو کہ) اس زمانہ کے لوگوں میں ختنہ کون کرتا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ سوائے یہود کے کوئی ختنہ نہیں کرتا، سو یہود کی طرف سے آپ اندیشہ نہ کریں اور اپنے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں لکھ بھیجئے کہ جتنے یہود وہاں ہیں سب قتل کردیئے جائیں، پس وہ لوگ اپنی اس تدبیر میں تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی لایا گیا، جسے غسان کے بادشاہ نے بھیجا تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر بیان کی، جب ہرقل نے اس سے یہ خبر معلوم کی، تو کہا کہ جاؤ اور دیکھو کہ وہ ختنہ کئے ہوئے ہے کہ نہیں، لوگوں نے اس کو دیکھا تو بیان کیا کہ وہ ختنے کئے ہوئے ہیں، اور ہرقل نے اس سے عرب کا حال پوچھا، تو اس نے کہا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں، تب ہرقل نے کہا کہ یہی (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس زمانہ کے لوگوں کا بادشاہ ہے، جو روم پر غالب آئے گا، پھر ہرقل نے اپنے دوست کو رومیہ (یہ حال) لکھ کر بھیجا اور وہ علم (نجوم) میں اسی کا ہم پایہ تھا اور (یہ لکھ کر) ہرقل حمص کی طرف چلا گیا، پھر حمص سے باہر نہیں جانے پایا کہ اس کے دوست کا خط (اسکے جواب میں) آگیا وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کے بارے میں ہرقل کی رائے کی موافقت کرتا تھا اور یہ (اس نے لکھا تھا) کہ وہ نبی ہیں اس کے بعد ہرقل نے سرداران روم کو اپنے محل میں جو حمص میں تھا، طلب کیا اور حکم دیا کہ محل کے دروازے بند کر لئے جائیں تو وہ بند کر دئیے گئے اور ہرقل (اپنے گھر سے) باہر آیا تو کہا کہ اے روم والو کیا ہدایت اور کامیابی میں (کچھ حصہ) تمہارا بھی ہے اور (تمہیں) یہ منظور ہے کہ تمہاری سلطنت قائم رہے (اگر ایسا چاہتے ہو) تو اس نبی کی بیعت کر لو، تو (اسکے سنتے ہی) وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف بھا گے، تو کواڑوں کو بند پایا بالآخر جب ہرقل نے اس درجے ان کی نفرت دیکھی اور (ان کے) ایمان لانے سے مایوس ہوگیا، تو بولا کہ ان لوگوں کو میرے پاس واپس لاؤ (جب وہ آئے تو ان سے) کہا میں نے یہ بات ابھی جو کہی تو اس سے تمہارے دین کی مضبوطی کا امتحان لینا تھا وہ مجھے معلوم ہوگئی تب لوگوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے خوش ہو گئے، ہرقل کی آخری حالت یہی رہی ابوعبداللہ کہتا ہے کہ اس حدیث کو (شعیب کے علاوہ) صالح بن کیسان اور یونس اور معمر نے (بھی) زہری سے روایت کیا ہے۔
-----------------------------
حدثنا إبراهيم بن حمزة قال حدثنا إبراهيم بن سعد عن صالح عن ابن شهاب عن عبيد الله بن عبد الله أن عبد الله بن عباس أخبره قال أخبرني أبو سفيان بن حرب أن هرقل قال له سألتک هل يزيدون أم ينقصون فزعمت أنهم يزيدون وکذلک الإيمان حتی يتم وسألتک هل يرتد أحد سخطة لدينه بعد أن يدخل فيه فزعمت أن لا وکذلک الإيمان حين تخالط بشاشته القلوب لا يسخطه أحد
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 50 حدیث موقوف مکررات 17 متفق علیہ 14
ابراہیم بن حمزہ، ابراہیم بن سعد، صالح، ابن شہاب، عبیداللہ بن عبداللہ ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوسفیان بن حرب نے بیان کیا کہ ان سے ہرقل نے کہا کہ میں نے تم سے پوچھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیروکار زیادہ ہوتے جاتے ہیں یا کم، تو تم نے کہا کہ زیادہ ہوتے جاتے ہیں اور ایمان جب تک اعلی درجہ تک نہ پہنچے اس وقت تک اس کی یہی صورت ہوتی ہے، میں نے تم سے یہ بھی سوال کیا تھا کہ ان میں سے کوئی اس دین میں داخل ہونے کے بعد دین سے پھر جاتا ہے؟ تو تم نے کہا کہ نہیں اور ایمان کی حالت اسی طرح ہے، جب کہ اس کی بشاشت دلوں میں مل جائے کہ پھر کوئی شخص اس سے ناخوش نہیں ہو سکتا۔
--------------------------------
حدثنا مسدد حدثنا عيسی بن يونس حدثنا الأوزاعي عن حسان بن عطية عن أبي کبشة السلولي سمعت عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما يقول قال رسول الله صلی الله عليه وسلم أربعون خصلة أعلاهن منيحة العنز ما من عامل يعمل بخصلة منها رجائ ثوابها وتصديق موعودها إلا أدخله الله بها الجنة قال حسان فعددنا ما دون منيحة العنز من رد السلام وتشميت العاطس وإماطة الأذی عن الطريق ونحوه فما استطعنا أن نبلغ خمس عشرة خصلة
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2522 حدیث مرفوع مکررات 5 متفق علیہ 1
مسدد عیسیٰ بن یونس اوزاعی حسان بن عطیہ ابوکبشہ سلولی عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ چالیس خصلتیں ہیں جن میں سب سے بہتر بکریوں کا کسی کو عطا کرنا ہے جو شخص ان میں سے کسی ایک خصلت پر بھی بغرض ثواب اور اللہ کے وعدے کو سچا سمجھ کر عمل کرے گا۔ تو اللہ اس کو جنت میں داخل کرے گا حسان کا بیان ہے کہ ہم بکری کے عطیہ کے علاوہ جن خصائل کا شمار کر سکے وہ یہ ہیں سلام کا جواب دینا چھینک کا جواب دینا راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کا دور کردینا وغیرہ وغیرہ ہم پندرہ خصلتوں سے زیادہ شمار نہیں کر سکے۔
-----------------------------------
قال وسمعت أنس بن مالک عن النبي صلی الله عليه وسلم لروحة في سبيل الله أو غدوة خير من الدنيا وما فيها ولقاب قوس أحدکم من الجنة أو موضع قيد يعني سوطه خير من الدنيا وما فيها ولو أن امرأة من أهل الجنة اطلعت إلی أهل الأرض لأضائت ما بينهما ولملأته ريحا ولنصيفها علی رأسها خير من الدنيا وما فيها
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 71 حدیث متواتر حدیث مرفوع
حمید راوی کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک کو رسول اللہ سے یہ بھی روایت کرتے ہوئے سنا کہ اللہ کی راہ میں صبح و شام کو تھوڑی دیر بھی چلنا تمام دنیا و مافیہا سے اچھا ہے اور بیشک جنت میں تمہارا ایک چھوٹا سا مقام جو ایک کمان یا ایک کوڑے کے برابر ہو تمام دنیا و مافیہا سے بہتر ہے اور اگر اہل جنت میں سے کوئی عورت زمین کی طرف رخ کرے تو وہ تمام فضا کو جو آسمان اور زمین کے بیچ میں ہے روشن کردے گی اور اس کو خوشبو سے بھرے گی اور بے شک اس کا دوپٹہ جو اس کے سر پر ہے تمام دنیا و مافیہا سے اعلیٰ و افضل ہے۔
-----------------------
حدثنا علي بن عبد الله حدثنا سفيان قال الزهري عن سعيد بن المسيب عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال لا تقوم الساعة حتى تقاتلوا قوما نعالهم الشعر ولا تقوم الساعة حتى تقاتلوا قوما كأن وجوههم المجان المطرقة قال سفيان وزاد فيه أبو الزناد عن الأعرج عن أبي هريرة رواية صغار الأعين ذلف الأنوف كأن وجوههم المجان المطرقة.
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 198 حدیث مرفوع مکررات 17 متفق علیہ 10
علی بن عبداللہ ، سفیان، زہری، سعید، بن مسیب، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی، یہاں تک کہ تم ایسے لوگوں سے جنگ کرو گے، جن کی جوتیاں بالوں کی ہونگی، اور قیامت قائم نہ ہوگی، یہاں تک کہ تم ایسے لوگوں سے جنگ کرو گے، جن کے چہرے بڑی ڈہالوں کے مثل ہوں گے، سفیان کہتے ہیں، ابوالزناد نے اعرج سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اتنی روایت زیادہ کی ہے، کہ ان کی آنکھیں چھوٹی اور ان کی ناکیں چپٹی ہونگی، ان کے چہرے بڑی ڈہالوں کے مثل چوڑے ہوں گے۔
-------------------------------
حدثنا أحمد بن محمد أخبرنا عبد الله أخبرنا إسماعيل بن أبي خالد أنه سمع عبد الله بن أبي أوفی رضي الله عنهما يقول دعا رسول الله صلی الله عليه وسلم يوم الأحزاب علی المشرکين فقال اللهم منزل الکتاب سريع الحساب اللهم اهزم الأحزاب اللهم اهزمهم وزلزلهم
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 202 حدیث مرفوع مکررات 9 متفق علیہ 8
احمد بن محمد، عبداللہ اسماعیل بن ابی خالد، عبداللہ بن ابی او فے سے روایت کرتے ہیں، کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ احزاب کے دن مشرکوں کیلئے یہ بد دعا کی تھی، کہ اے اللہ کتاب کے نازل کرنے والے حساب کے جلد لینے والے، اے اللہ ان ٹولیوں کو بھگا دے، اے اللہ ان کو تتر بتر کردے اور ان کو اکھاڑ دے۔
------------------------------
حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري قال حدثني عروة بن الزبير عن المسور بن مخرمة أنه أخبره أن عمرو بن عوف الأنصاري وهو حليف لبني عامر بن لؤي وکان شهد بدرا أخبره أن رسول الله صلی الله عليه وسلم بعث أبا عبيدة بن الجراح إلی البحرين يأتي بجزيتها وکان رسول الله صلی الله عليه وسلم هو صالح أهل البحرين وأمر عليهم العلائ بن الحضرمي فقدم أبو عبيدة بمال من البحرين فسمعت الأنصار بقدوم أبي عبيدة فوافت صلاة الصبح مع النبي صلی الله عليه وسلم فلما صلی بهم الفجر انصرف فتعرضوا له فتبسم رسول الله صلی الله عليه وسلم حين رآهم وقال أظنکم قد سمعتم أن أبا عبيدة قد جائ بشيئ قالوا أجل يا رسول الله قال فأبشروا وأملوا ما يسرکم فوالله لا الفقر أخشی عليکم ولکن أخشی عليکم أن تبسط عليکم الدنيا کما بسطت علی من کان قبلکم فتنافسوها کما تنافسوها وتهلککم کما أهلکتهم
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 420 حدیث مرفوع مکررات 9 متفق علیہ 5
ابو الیمان شعیب زہری عروہ حضرت مسور رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان سے عمرو بن عوف انصاری نے جو بنو عامر بن لوی کے حلیف اور بدری تھے بیان کیا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح کو جزیہ لانے کے لیے بحرین روانہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین کے باشندوں سے صلح کرکے ان پر علاء بن حضرمی کو حاکم اعلیٰ مقرر فرما دیا تھا انصار نے جب سن لیا کہ ابوعبیدہ بحرین سے مال لے کر لوٹ آئے ہیں تو انہوں نے ایک دن نماز فجر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پڑھی پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر پڑھ کے واپس ہونے لگے تو انصاری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے جمع ہو گئے یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرائے اور فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ تم نے سنا ہے کہ ابوعبیدہ کچھ مال لائے ہیں ان لوگوں نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسرور ہو جاؤ اور اس امر کی امید رکھو جو تم کو فرحان و شاداں کردے گی اللہ کی قسم! مجھے تمہاری ناداری کا اندیشہ نہیں البتہ اس امر کا ڈر لگا ہوا ہے کہ تمہارے لئے دنیا ایسی ہی وسیع کردی جائے گی جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ و فراخ کردی گئی تھی اور اس وقت تم جھگڑے کروگے جیسے کہ پچھلی قوموں نے جھگڑے مچائے تھے اور یہ فراخی و کشادگی تم کو ہلاکت میں ڈال دے گی جس طرح گزشتہ لوگوں کو اس نے ہلاک کردیا ہے۔
------------------------------
حدثنا مسدد حدثنا يحيی عن عمران أبي بکر حدثنا أبو رجائ عن عمران بن حصين رضي الله عنهما قال أنزلت آية المتعة في کتاب الله ففعلناها مع رسول الله صلی الله عليه وسلم ولم ينزل قرآن يحرمه ولم ينه عنها حتی مات قال رجل برأيه ما شائ
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1697 حدیث مرفوع مکررات 17 متفق علیہ 12
مسدد، یحی، عمران ، ابی بکر، ابورجاء، عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انهوں نے بیان کیا که جب تمتع کی آیت نازل ہوئی تو ہم نے رسول الله صلی الله علیه وسلم کے ہمراه تمتع کیا، پھر اس کے بعد ایسی کوئی آیت نازل نہیں ہوئی، جس کی رو سے تمتع سے منع کیا گیا ہو، یهاں تک که آپ صلی الله علیه وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے صرف حضرت عمر ہیں جو اپنی رائے علیحده رکھتے ہیں۔
-----------------------------
حدثني محمد بن بشار حدثنا عبد الوهاب حدثنا أيوب ذکر شر الثلاثة عند عکرمة فقال قال ابن عباس أتی رسول الله صلی الله عليه وسلم وقد حمل قثم بين يديه والفضل خلفه أو قثم خلفه والفضل بين يديه فأيهم شر أو أيهم اخير
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 926 حدیث مرفوع مکررات 5 متفق علیہ 3
محمد بن بشار، عبدالوہاب، ایوب کہتے ہیں کہ عکرمہ کے پاس کسی نے کہا کہ تین آدمیوں کا (سواری) بیٹھنا بدترین بات ہے تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آگے قثم کو اور فضل کو اپنے پیچھے یا قسم کو اپنے پیچھے اور فضل کو اپنے آگے سوار کرلیا تھا، تو ان میں سے کون اچھا ہے اور کون برا ہے۔
--------------------
حدثنا أبو نعيم حدثنا عمر بن ذر و حدثنا محمد بن مقاتل أخبرنا عبد الله أخبرنا عمر بن ذر أخبرنا مجاهد عن أبي هريرة رضي الله عنه قال دخلت مع رسول الله صلی الله عليه وسلم فوجد لبنا في قدح فقال أبا هر الحق أهل الصفة فادعهم إلي قال فأتيتهم فدعوتهم فأقبلوا فاستأذنوا فأذن لهم فدخلوا
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1198 حدیث مرفوع مکررات 3 متفق علیہ 2
ابو نعیم عمر بن زر (دوسری سند) محمد بن مقاتل عبداللہ عمر بن ذر مجاہد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (مکان میں) داخل ہوا آپ نے پیالہ میں دودھ دیکھا تو فرمایا۔ اے ابوہر اہل صفہ کے پاس جاؤ اور ان کو میرے پاس بلا لاؤ میں ان لوگوں کے پاس گیا اور انہیں بلایا وہ لوگ آئے اور اجازت چاہی تو انہیں اجازت دی گئی اور اندر داخل ہوئے۔
-------------------------------
حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري أخبرني السائب بن يزيد ابن أخت نمر أن حويطب بن عبد العزی أخبره أن عبد الله بن السعدي أخبره أنه قدم علی عمر في خلافته فقال له عمر ألم أحدث أنک تلي من أعمال الناس أعمالا فإذا أعطيت العمالة کرهتها فقلت بلی فقال عمر فما تريد إلی ذلک قلت إن لي أفراسا وأعبدا وأنا بخير وأريد أن تکون عمالتي صدقة علی المسلمين قال عمر لا تفعل فإني کنت أردت الذي أردت فکان رسول الله صلی الله عليه وسلم يعطيني العطائ فأقول أعطه أفقر إليه مني حتی أعطاني مرة مالا فقلت أعطه أفقر إليه مني فقال النبي صلی الله عليه وسلم خذه فتموله وتصدق به فما جائک من هذا المال وأنت غير مشرف ولا سائل فخذه وإلا فلا تتبعه نفسک وعن الزهري قال حدثني سالم بن عبد الله أن عبد الله بن عمر قال سمعت عمر بن الخطاب يقول کان النبي صلی الله عليه وسلم يعطيني العطائ فأقول أعطه أفقر إليه مني حتی أعطاني مرة مالا فقلت أعطه من هو أفقر إليه مني فقال النبي صلی الله عليه وسلم خذه فتموله وتصدق به فما جائک من هذا المال وأنت غير مشرف ولا سائل فخذه ومالا فلا تتبعه نفسک
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2077 حدیث مرفوع مکررات 21 متفق علیہ 7
ابوالیمان، شعیب، زہری، سائب بن یزید بن اخت نمر، حویطب بن عبدالعزی، عبداللہ بن سعدی سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کےزمانہ میں میں ان کے پاس آئے تو ان سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ مجھ سے یہ بیان نہیں کیا گیا کہ تم لوگوں کے کام کرتے ہو پھر جب تم کو اس کی اجرت دی جاتی ہے تو اس کو ناپسند کرتے ہو، میں نے کہا ہاں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اس سے پھر تمہارا کیا ارادہ ہے، میں نے کہا کہ میرے پاس گھوڑے اور غلام ہیں اور مال بھی ہے میں چاہتا ہوں کہ اپنی اجرت مسلمانوں پر صدقہ کردوں، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ایسا نہ کرو اس لئے کہ میں نے بھی وہی ارادہ کیا تھا جو تم نے ارادہ کیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے کچھ دیا کرتے تھے، تو میں کہتا کہ یہ اس کو دے دیں، جو مجھ سے زیادہ محتاج ہو یہاں تک کہ ایک بار آپ نے مجھے مال دیا تو میں نے عرض کیا اس کو دے جو مجھ سے زیادہ محتاج ہو تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو لے لو، اور اس کے ذریعہ سے مالدار بن کر اس کو صدقہ کرو اگر مال تمہارے پاس اس طور پر آئے کہ تم اس کے منتظر نہ ہو اور نہ تم اس کا سوال کرنے والے ہو تو اس کو لے لو، اور اپنے نفس کو اس کے پیچھے نہ لگاؤ، بواسطہ زہری، سالم بن عبداللہ ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ کو کچھ دیتے تو میں کہہ دیتا کہ مجھ سے زیادہ جو محتاج ہو اس کو دیدو یہاں تک کہ ایک بار آپ نے مجھےکچھ مال دیا تو میں نے کہا کہ یہ اس کو دیدیجئے جو مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو لے لو، اور مالدار بن جاؤ اور اس کو صدقہ کرو، اگر اس مال میں سے تمہارے پاس اس طرح آئے کہ تم اس کا انتظار کرنے والے نہ ہو اور نہ مانگنے والے ہو تو اس کو لے لو، اور جو نہ آئے تو اس کے پیچھے اپنے دل کو نہ لگاو۔
------------------------
حدثنا إسحق بن إبراهيم الحنظلي وابن أبي عمر ومحمد بن رافع وعبد بن حميد واللفظ لابن رافع قال ابن رافع وابن أبي عمر حدثنا و قال الآخران أخبرنا عبد الرزاق أخبرنا معمر عن الزهري عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة عن ابن عباس أن أبا سفيان أخبره من فيه إلی فيه قال انطلقت في المدة التي کانت بيني وبين رسول الله صلی الله عليه وسلم قال فبينا أنا بالشأم إذ جي بکتاب من رسول الله صلی الله عليه وسلم إلی هرقل يعني عظيم الروم قال وکان دحية الکلبي جا به فدفعه إلی عظيم بصری فدفعه عظيم بصری إلی هرقل فقال هرقل هل هاهنا أحد من قوم هذا الرجل الذي يزعم أنه نبي قالوا نعم قال فدعيت في نفر من قريش فدخلنا علی هرقل فأجلسنا بين يديه فقال أيکم أقرب نسبا من هذا الرجل الذي يزعم أنه نبي فقال أبو سفيان فقلت أنا فأجلسوني بين يديه وأجلسوا أصحابي خلفي ثم دعا بترجمانه فقال له قل لهم إني سال هذا عن الرجل الذي يزعم أنه نبي فإن کذبني فکذبوه قال فقال أبو سفيان وايم الله لولا مخافة أن يؤثر علي الکذب لکذبت ثم قال لترجمانه سله کيف حسبه فيکم قال قلت هو فينا ذو حسب قال فهل کان من آباه ملک قلت لا قال فهل کنتم تتهمونه بالکذب قبل أن يقول ما قال قلت لا قال ومن يتبعه أشراف الناس أم ضعفاؤهم قال قلت بل ضعفاؤهم قال أيزيدون أم ينقصون قال قلت لا بل يزيدون قال هل يرتد أحد منهم عن دينه بعد أن يدخل فيه سخطة له قال قلت لا قال فهل قاتلتموه قلت نعم قال فکيف کان قتالکم إياه قال قلت تکون الحرب بيننا وبينه سجالا يصيب منا ونصيب منه قال فهل يغدر قلت لا ونحن منه في مدة لا ندري ما هو صانع فيها قال فوالله ما أمکنني من کلمة أدخل فيها شيا غير هذه قال فهل قال هذا القول أحد قبله قال قلت لا قال لترجمانه قل له إني سألتک عن حسبه فزعمت أنه فيکم ذو حسب وکذلک الرسل تبعث في أحساب قومها وسألتک هل کان في آباه ملک فزعمت أن لا فقلت لو کان من آباه ملک قلت رجل يطلب ملک آباه وسألتک عن أتباعه أضعفاؤهم أم أشرافهم فقلت بل ضعفاؤهم وهم أتباع الرسل وسألتک هل کنتم تتهمونه بالکذب قبل أن يقول ما قال فزعمت أن لا فقد عرفت أنه لم يکن ليدع الکذب علی الناس ثم يذهب فيکذب علی الله وسألتک هل يرتد أحد منهم عن دينه بعد أن يدخله سخطة له فزعمت أن لا وکذلک الإيمان إذا خالط بشاشة القلوب وسألتک هل يزيدون أو ينقصون فزعمت أنهم يزيدون وکذلک الإيمان حتی يتم وسألتک هل قاتلتموه فزعمت أنکم قد قاتلتموه فتکون الحرب بينکم وبينه سجالا ينال منکم وتنالون منه وکذلک الرسل تبتلی ثم تکون لهم العاقبة وسألتک هل يغدر فزعمت أنه لا يغدر وکذلک الرسل لا تغدر وسألتک هل قال هذا القول أحد قبله فزعمت أن لا فقلت لو قال هذا القول أحد قبله قلت رجل اتم بقول قيل قبله قال ثم قال بم يأمرکم قلت يأمرنا بالصلاة والزکاة والصلة والعفاف قال إن يکن ما تقول فيه حقا فإنه نبي وقد کنت أعلم أنه خارج ولم أکن أظنه منکم ولو أني أعلم أني أخلص إليه لأحببت لقاه ولو کنت عنده لغسلت عن قدميه وليبلغن ملکه ما تحت قدمي قال ثم دعا بکتاب رسول الله صلی الله عليه وسلم فقرأه فإذا فيه بسم الله الرحمن الرحيم من محمد رسول الله إلی هرقل عظيم الروم سلام علی من اتبع الهدی أما بعد فإني أدعوک بدعاية الإسلام أسلم تسلم وأسلم يؤتک الله أجرک مرتين وإن توليت فإن عليک إثم الأريسيين و يا أهل الکتاب تعالوا إلی کلمة سوا بيننا وبينکم أن لا نعبد إلا الله ولا نشرک به شيا ولا يتخذ بعضنا بعضا أربابا من دون الله فإن تولوا فقولوا اشهدوا بأنا مسلمون فلما فرغ من قراة الکتاب ارتفعت الأصوات عنده وکثر اللغط وأمر بنا فأخرجنا قال فقلت لأصحابي حين خرجنا لقد أمر أمر ابن أبي کبشة إنه ليخافه ملک بني الأصفر قال فما زلت موقنا بأمر رسول الله صلی الله عليه وسلم أنه سيظهر حتی أدخل الله علي الإسلام
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 110 حدیث مرفوع مکررات 17 متفق علیہ 14
اسحاق بن ابراہیم حنظلی، ابن ابی عمر، محمد بن رافع، عبداللہ بن حمید، ابن رافع، ابن ابی عمر، عبدالرزاق، معمر، زہری، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ، ابوسفیان، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے روبرو خبر دی کہ میں اپنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان مدت معاہدہ کے دوران شام کی طرف چلا ہم شام میں قیام پذیر تھے کہ اسی دوران شام کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط لایا گیا جسے حضرت دحیہ کلبی لائے تھے پس انہوں نے یہ بصریٰ کے گورنر کے سپرد کیا اور بصریٰ کے گورنر نے وہ خط ہرقل کو پیش کیا تو ہرقل نے کہا کیا یہاں کوئی آدمی اس کی قوم کا آیا ہوا ہے جس نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ نبی ہے لوگوں نے کہا جی ہاں چنانچہ مجھے قریش کے چند آدمیوں کے ساتھ بلایا گیا ہم ہرقل کے پاس پہنچے تو اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھایا پھر کہا تم میں کون نسب کے اعتبار سے اس آدمی کے قریب ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں میں نے کہا میں ہوں تو اس نے مجھے اپنے سامنے اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا پھر اپنے ترجمان کو بلایا پھر اس سے کہا ان سے کہو میں اس آدمی کے بارے میں پوچھنے والا ہوں جس کا گمان ہے کہ وہ نبی ہے پس اگر یہ مجھ سے جھوٹ بولے تو تم اس کی تکذیب کرنا ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اللہ کی قسم اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ یہ مجھے جھوٹا کہیں گے تو میں ضرور جھوٹ بولتا پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے پوچھو کہ اس کا خاندان تم میں کیسا ہے؟ میں نے کہا وہ ہم میں نہایت شریف النسب ہے کیا اس کے آباؤ اجداد میں سے کوئی بادشاہ بھی تھا؟ میں نے کہا نہیں ہرقل نے کہا کیا تم اسے اس بات کا دعوی کرنے سے پہلے جھوٹ سے متہم کرتے تھے؟ میں نے کہا نہیں ہرقل نے کہا اس کی اتباع کرنے والے بڑے بڑے لوگ ہیں یا کمزور و غریب؟ میں نے کہا بلکہ وہ کمزور لوگ ہیں۔ اس نے کہا وہ بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں ؟ میں نے کہا: نہیں بلکہ وہ بڑھ رہے ہیں ۔اس نے کہا کیا ان میں سے کوئی اپنے دین سے اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ناراضگی کی وجہ سے پھر بھی گیا ہے؟ میں نے کہا نہیں اس نے کہا کیا تم نے اس سے کوئی جنگ بھی کی؟ میں نے کہا جی ہاں ہرقل نے کہا اس سے تمہاری جنگ کا نتیجہ کیا رہا؟ میں نے کہا جنگ ہمارے اور ان کے درمیان ایک ڈول رہی کبھی انہوں نے ہم سے کھینچ اور کبھی ہم نے ان سے کھینچ لیا اس نے کہا کیا وہ معاہدہ کی خلاف ورزی بھی کرتا ہے؟ میں نے کہا نہیں اور ہم اس سے ایک معاہدہ میں ہیں ہم نہیں جانتے وہ اس بارے میں کیا کرنے والے ہیں ابوسفیان کہنے لگے اللہ کی قسم اس نے مجھے اس ایک کلمہ کے سوا کوئی بات اپنی طرف سے شامل کرنے کی گنجائش ہی نہیں دی ہرقل نے کہا کیا اس سے پہلے کسی اور نے بھی اس کے خاندان سے اس بات کا دعوی کیا ہے؟ میں نے کہا نہیں اس نے اپنے ترجمان سے کہا اس سے کہو میں نے تجھ سے اس کے خاندان کے بارے میں پوچھا اور تیرا گمان ہے کہ وہ تم میں سے اچھے خاندان والا ہے اور رسولوں کو اسی طرح اپنی قوم کے اچھے خاندانوں سے بھیجا جاتا ہے اور میں نے تجھ سے پوچھا کیا اس کے آباؤ اجداد میں کوئی بادشاہ گزرا ہے اور تیرا خیال ہے کہ نہیں تو میں کہتا ہوں اگر اس کے آباو اجداد میں کوئی بادشاہ ہوتا تو میں کہتا کہ وہ ایسا آدمی ہے جو اپنے آباؤ اجداد کی بادشاہت کا طالب ہے اور میں نے تجھ سے اس کی پیروی کرنے والوں کے بارے میں پوچھا کیا وہ ضعیف طبقہ کے لوگ ہیں یا بڑے آدمی ہیں تو نے کہا بلکہ وہ کمزور ہیں اور یہی لوگ رسولوں کے پیروگار ہوتے ہیں اور میں نے تجھ سے پوچھا کیا تم اسے اس دعوی سے قبل جھوٹ سے بھی متہم کرتے تھے اور تو نے کہا نہیں تو میں نے پہچان لیا جو لوگوں پر جھوٹ نہیں باندھتا وہ اللہ پر جھوٹ باندھنے کا ارتکاب کیسے کر سکتا ہے اور میں نے تجھ سے پوچھا کیا ان لوگوں میں سے کوئی دین میں داخل ہونے کے بعد ان سے ناراضگی کی وجہ سے پھر بھی گیا ہے تو نے کہا نہیں اور اسی طرح ایمان کی حلاوت ہوتی ہے جب دل اس سے لطف اندوز ہو جائیں اور میں نے تجھ سے پوچھا کیا وہ بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں تو نے کہا کہ وہ بڑھ رہے ہیں تو حقیقت میں ایمان کے درجہ تکمیل تک پہنچنے میں یہی کیفیت ہوتی ہے میں نے تجھ سے پوچھا کیا تم نے اس سے کوئی جنگ بھی کی اور تو نے کہا ہم اس سے جنگ کر چکے ہیں اور جنگ تمہارے اور اس کے درمیان ڈول کی طرح ہے کبھی وہ تم پر غالب اور کبھی تم اس پر غالب رہے اور رسولوں کو اسی طرح مبتلا رکھا جاتا ہے پھر آخر انجام فتح انہی کی ہوتی ہے اور میں نے تجھ سے پوچھا کیا اس نے معاہدہ کی خلاف ورزی بھی کی؟ تو نے کہا: نہیں اور رسل علیہم السلام اسی طرح عہد شکنی نہیں کرتے اور میں نے تجھ سے پوچھا کیا یہ دعوی اس سے پہلے بھی کسی نے کیا تو تم نے کہا نہیں تو میں کہتا ہوں اگر یہ دعوی اس سے پہلے کیا جاتا تو کہتا ہے یہ ایسا آدمی ہے جو اپنے سے پہلے کئے گئے دعوی کی تکمیل کر رہا ہے ابوسفیان نے کہا پھر ہرقل نے کہا وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں میں نے کہا وہ ہمیں نماز، زکوۃ، صلہ رحمی اور پاک دامنی کا حکم دیتے ہیں ہرقل نے کہا جو کچھ تم کہہ رہے ہو اگر یہ سچ ہے تو وہ واقعتا نبی ہے اس نے کہا میں جانتا تھا کہ اس کا ظہور تم میں سے ہوگا اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میں ان تک پہنچ جاؤں گا تو میں ان کی ملاقات کو پسند کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو میں ان کے پاؤں مبارک دھوتا اور ان کی بادشاہت ضرور بالضرور میرے قدموں کے نیچے پہنچ جائے گی پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط مبارک منگوا کر پڑھا تو اس میں یہ تھا بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے(یہ خط) بادشاہ روم ہرقل کی طرف۔ اس پر سلامتی ہو جس نے ہدایت کا اتباع کیا۔ اما بعد میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا ہوں اسلام قبول کرلو سلامت رہو گے اور اسلام قبول کر لے اللہ تجھے دوہرا ثواب عطا کرے گا اور اگر تم نے اعراض کیا تو رعایا کا گناہ بھی تجھ پر ہوگا اور اےاہل کتاب آؤ اس بات کی طرف جو تمہارے اور ہمارے درمیان برابر(مطفق) ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت کریں اور نہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک کریں گے اور نہ ہمارے بعض دوسرے بعض کو اللہ کے سوا رب بنائیں گے پس اگر وہ اعراض کریں تو تم کہہ دو گواہ ہو جاؤ کہ ہم مسلمان ہیں۔ جب خط کے پڑھنے سے فارغ ہوا تو اس کے سامنے چیخ و پکار ہونے لگی اور بکثرت آوازیں آنا شروع ہو گئیں اور اس نے ہمیں باہر لے جانے کا حکم دیا میں نے اپنے ساتھیوں سے اس وقت کہا جب کہ ہمیں نکالا گیا کہ اب تو ابن ابی کبشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بہت بڑھ گئی ہے کہ اس سے تو شاہ روم بھی خوف کرتا ہے اور اسی وقت سے مجھے ہمیشہ یہ یقین رہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عنقریب غالب ہوں گے حتی کہ رب العزت نے اپنی رحمت سے مجھے اسلام میں داخل کر دیا۔
--------------------------
و حدثناه حسن الحلواني وعبد بن حميد قالا حدثنا يعقوب وهو ابن إبراهيم بن سعد حدثنا أبي عن صالح عن ابن شهاب بهذا الإسناد وزاد في الحديث وکان قيصر لما کشف الله عنه جنود فارس مشی من حمص إلی إيليا شکرا لما أبلاه الله وقال في الحديث من محمد عبد الله ورسوله وقال إثم اليريسيين وقال بداعية الإسلام
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 111 حدیث مرفوع مکررات 17 متفق علیہ 14
حسن حلوانی، عبد بن حمید، یعقوب ابن ابراہیم، ابن سعد، ابوصالح، ابن شہاب سے ان سندوں کے ساتھ روایت ہے اور اس حدیث میں یہ زائد ہے کہ قیصر نے جب فارس کے لشکر کو شکست دی تو وہ حمص سے ایلیاء کی طرف چلا تاکہ وہ اس آزمائش میں کامیاب ہونے پر اللہ کا شکر ادا کرے۔
---------------------------------
حدثنا الحسن بن علي ومحمد بن يحيی قالا حدثنا عبد الرزاق عن معمر عن الزهري عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة عن ابن عباس أن النبي صلی الله عليه وسلم کتب إلی هرقل من محمد رسول الله إلی هرقل عظيم الروم سلام علی من اتبع الهدی قال ابن يحيی عن ابن عباس أن أبا سفيان أخبره قال فدخلنا علی هرقل فأجلسنا بين يديه ثم دعا بکتاب رسول الله صلی الله عليه وسلم فإذا فيه بسم الله الرحمن الرحيم من محمد رسول الله إلی هرقل عظيم الروم سلام علی من اتبع الهدی أما بعد
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1725 حدیث مرفوع مکررات 17 متفق علیہ 14
حسن بن علی، محمد بن یحیی، عبدالرزاق، معمر، زہری، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہرقل کو خط لکھا کہ محمد رسول اللہ کی طرف سے روم کے بڑے بادشاہ ہرقل کی طرف۔ سلام اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی۔ محمد بن یحیی راوی نے کہا کہ ابن عباس نے فرمایا کہ ابوسفیان نے انہیں بتلایا اور کہا کہ ہم ہرقل کے دربار میں داخل ہوئے تو اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھایا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نامہ مبارک منگوایا تو اس میں لکھا تھابِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ۔ مُحَمَّدُ رَسُولُ اللَّهِ کی طرف سے روم کے بڑے بادشاہ کی طرف۔ سلام اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی۔ امابعد۔
--------------------------
حدثنا سويد أنبأنا عبد الله أنبأنا يونس عن الزهري أخبرني عبيد الله بن عبد الله عن ابن عباس أنه أخبره أن أبا سفيان بن حرب أخبره أن هرقل أرسل إليه في نفر من قريش وکانوا تجارا بالشام فأتوه فذکر الحديث قال ثم دعا بکتاب رسول الله صلی الله عليه وسلم فقر فإذا فيه بسم الله الرحمن الرحيم من محمد عبد الله ورسوله إلی هرقل عظيم الروم السلام علی من اتبع الهدی أما بعد قال أبو عيسی هذا حديث حسن صحيح وأبو سفيان اسمه صخر بن حرب
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 628 حدیث مرفوع مکررات 17 متفق علیہ 14
سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، یونس، زہری، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبة، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوسفیان بن حرب نے انہیں بتایا کہ ہرقل نے انہیں کچھ لوگوں کے ساتھ تجارت کے لیے شام جانے کے موقع پر پیغام بھیجا تو سب اس کے دربار میں حاضر ہوئے۔ پھر ابوسفیان نے حدیث ذکر کی اور کہا کہ ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط منگوایا اور وہ پڑھا گیا اس میں لکھا ہوا تھا۔ (بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَی هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ السَّلَامُ عَلَی مَنْ اتَّبَعَ الْهُدَی أَمَّا بَعْدُ) یہ تحریر اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہرقل کی طرف بھیجی گئی ہے جو روم کا بڑا حاکم ہے۔ سلام ہے اس پر جو ہدایت کے راستے کی اتباع کرے امابعد۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور ابوسفیان کا نام صخر بن حرب ہے۔
----------------------------------
حدثنا يعقوب قال حدثنا ابن أخي ابن شهاب عن عمه محمد بن مسلم قال أخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود أن عبد الله بن عباس أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كتب إلى قيصر يدعوه إلى الإسلام وبعث كتابه مع دحية الكلبي وأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يدفعه إلى عظيم بصرى ليدفعه إلى قيصر فدفعه عظيم بصرى وكان قيصر لما كشف الله عز وجل عنه جنود فارس مشى من حمص إلى إيليا على الزرابي تبسط له فقال عبد الله بن عباس فلما جا قيصر كتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قال حين قرأه التمسوا لي من قومه من أسأله عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ابن عباس فأخبرني أبو سفيان بن حرب أنه كان بالشام في رجال من قريش قدموا تجارا وذلك في المدة التي كانت بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين كفار قريش قال أبو سفيان فأتاني رسول قيصر فانطلق بي وبأصحابي حتى قدمنا إيليا فأدخلنا عليه فإذا هو جالس في مجلس ملكه عليه التاج وإذا حوله عظما الروم فقال لترجمانه سلهم أيهم أقرب نسبا بهذا الرجل الذي يزعم أنه نبي قال أبو سفيان أنا أقربهم إليه نسبا قال ما قرابتك منه قال قلت هو ابن عمي قال أبو سفيان وليس في الركب يومذ رجل من بني عبد مناف غيري قال فقال قيصر أدنوه مني ثم أمر بأصحابي فجعلوا خلف ظهري عند كتفي ثم قال لترجمانه قل لأصحابه إني سال هذا عن الرجل الذي يزعم أنه نبي فإن كذب فكذبوه قال أبو سفيان فوالله لولا الاستحيا يومذ أن يأثر أصحابي عني الكذب لكذبته حين سألني ولكني استحيت أن يؤثر عني الكذب فصدقته عنه ثم قال لترجمانه قل له كيف نسب هذا الرجل فيكم قال قلت هو فينا ذو نسب قال فهل قال هذا القول منكم أحد قط قبله قال قلت لا قال فهل كنتم تتهمونه في الكذب قبل أن يقول ما قال قال فقلت لا قال فهل كان من آباه من ملك قال قلت لا قال فأشراف الناس اتبعوه أم ضعفاؤهم قال قلت بل ضعفاؤهم قال فيزيدون أم ينقصون قال قلت بل يزيدون قال فهل يرتد أحد سخطة لدينه بعد أن يدخل فيه قال قلت لا قال فهل يغدر قال قلت لا ونحن الآن منه في مدة ونحن نخاف ذلك قال أبو سفيان ولم تمكني كلمة أدخل فيها شيا أنتقصه به غيرها لأخاف أن يؤثر عني الكذب قال فهل قاتلتموه أو قاتلكم قال قلت نعم قال كيف كانت حربكم وحربه قال قلت كانت دولا سجالا ندال عليه المرة ويدال علينا الأخرى قال فبم يأمركم قال قلت يأمرنا أن نعبد الله وحده ولا نشرك به شيا وينهانا عما كان يعبد آباؤنا ويأمرنا بالصلاة والصدق والعفاف والوفا بالعهد وأدا الأمانة قال فقال لترجمانه حين قلت له ذلك قل له إني سألتك عن نسبه فيكم فزعمت أنه فيكم ذو نسب وكذلك الرسل تبعث في نسب قومها وسألتك هل قال هذا القول أحد منكم قط قبله فزعمت أن لا فقلت لو كان أحد منكم قال هذا القول قبله قلت رجل يأتم بقول قيل قبله وسألتك هل كنتم تتهمونه بالكذب قبل أن يقول ما قال فزعمت أن لا فقد أعرف أنه لم يكن ليذر الكذب على الناس ويكذب على الله عز وجل وسألتك هل كان من آباه من ملك فزعمت أن لا فقلت لو كان من آباه ملك قلت رجل يطلب ملك آباه وسألتك أشراف الناس يتبعونه أم ضعفاؤهم فزعمت أن ضعفاهم اتبعوه وهم أتباع الرسل وسألتك هل يزيدون أم ينقصون فزعمت أنهم يزيدون وكذلك الإيمان حتى يتم وسألتك هل يرتد أحد سخطة لدينه بعد أن يدخل فيه فزعمت أن لا وكذلك الإيمان حين يخالط بشاشة القلوب لا يسخطه أحد وسألتك هل يغدر فزعمت أن لا وكذلك الرسل وسألتك هل قاتلتموه وقاتلكم فزعمت أن قد فعل وأن حربكم وحربه يكون دولا يدال عليكم المرة وتدالون عليه الأخرى وكذلك الرسل تبتلى ويكون لها العاقبة وسألتك بماذا يأمركم فزعمت أنه يأمركم أن تعبدوا الله عز وجل وحده لا تشركوا به شيا وينهاكم عما كان يعبد آباؤكم ويأمركم بالصدق والصلاة والعفاف والوفا بالعهد وأدا الأمانة وهذه صفة نبي قد كنت أعلم أنه خارج ولكن لم أظن أنه منكم فإن يكن ما قلت فيه حقا فيوشك أن يملك موضع قدمي هاتين والله لو أرجو أن أخلص إليه لتجشمت لقيه ولو كنت عنده لغسلت عن قدميه قال أبو سفيان ثم دعا بكتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فأمر به فقر فإذا فيه بسم الله الرحمن الرحيم من محمد عبد الله ورسوله إلى هرقل عظيم الروم سلام على من اتبع الهدى أما بعد فإني أدعوك بدعاية الإسلام أسلم تسلم وأسلم يؤتك الله أجرك مرتين فإن توليت فعليك إثم الأريسيين يعني الأكارة و يا أهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سوا بيننا وبينكم ألا نعبد إلا الله ولا نشرك به شيا ولا يتخذ بعضنا بعضا أربابا من دون الله فإن تولوا فقولوا اشهدوا بأنا مسلمون قال أبو سفيان فلما قضى مقالته علت أصوات الذين حوله من عظما الروم وكثر لغطهم فلا أدري ماذا قالوا وأمر بنا فأخرجنا قال أبو سفيان فلما خرجت مع أصحابي وخلصت لهم قلت لهم أمر أمر ابن أبي كبشة هذا ملك بني الأصفر يخافه قال أبو سفيان فوالله ما زلت ذليلا مستيقنا أن أمره سيظهر حتى أدخل الله قلبي الإسلام وأنا كاره حدثنا يعقوب حدثنا أبي عن صالح بن كيسان قال قال ابن شهاب أخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود أن عبد الله بن عباس أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كتب فذكره حدثنا عبد الرزاق عن معمر فذكره
مسند احمد:جلد دوم:حدیث نمبر 512 حدیث مرفوع مکررات 17 متفق علیہ 14
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر روم کو ایک خط لکھا جس میں اسے اسلام کی دعوت دی، اور یہ خط دے کر حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو بھیج دیا اور انہیں یہ حکم دیا کہ یہ خط بصرہ کے گورنر تک پہنچا دینا تاکہ وہ قیصر کے پاس اس خط کو بھجوا دے، چنانچہ بصرہ کے گورنر نے وہ خط قیصر روم تک پہنچا دیا قیصر کو چونکہ اللہ تعالیٰ نے ایرانی لشکروں پر فتح یابی عطاء فرمائی تھی اس لئے وہ اس کی خوشی میں شکرانے کے طور پر حمص سے بیت المقدس تک پیدل سفر طے کر کے آیا ہوا تھا، اس سفر میں اس کے لئے راستے بھر قالین بچھائے گئے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب قیصر کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ملا تو اس نے وہ خط پڑھ کر کہا کہ ان کی قوم کا کوئی آدمی تلاش کر کے لاؤ تاکہ میں اس سے کچھ سوالات پوچھ سکوں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ بن حرب نے مجھ سے بیان کیا کہ ہر قل(شاہ روم) نے ان کے پاس ایک آدمی بھیجا ( اور وہ) قریش کے چند سواروں میں سے جو اس وقت بیٹھے ہوئے تھے) اور وہ لوگ شام میں تاجر (بن کر گئے) تھے (اوریہ واقعہ) اس زمانہ میں (ہوا ہے) جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان اور کفار قریش سے ایک محدود عہد کیا تھا ۔ چنانچہ قریش ہرقل کے پاس آئے اور یہ لوگ(اس وقت) ایلیاء میں تھے، تو ہرقل نے ان کو اپنے دربار میں طلب کیا اور اس کے گرد سرداران روم (بیٹھے ہوئے تھے) پھر ان (سب قریشیوں کو) اس نے اپنے قریب) بلایا اور اپنے ترجمان کو طلب کیا اور (قریشیوں سے مخاطب ہو کر ) کہا کہ تم میں سب سے زیادہ اس شخص کا قریب النسب کون ہے، جو اپنے کو نبی کہتا ہے؟ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں ان میں سب سے زیادہ (ان کا) قریب النسب ہوں (یہ سن کر) ہرقل نے کہا کہ ابوسفیان کو میرے قریب کر دو اور اس کے ساتھیوں کو (بھی) قریب رکھو اور ان کو ابو سفیان کے پاس پشت پر (کھڑا) کرو، پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہو کہ میں ابو سفیان سے اس مرد کا حال پوچھتا ہوں (جو اپنے کو نبی کہتا ہے) پس اگر یہ مجھ سے جھوٹ کہے تو تم (فورا) اس کی تکذیب کر دینا (ابوسفیان کہتے ہیں کہ) اللہ کی قسم! اگر مجھے اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ لوگ میرے اوپر جھوٹ بولنے کا الزام لگائیں گے، تو یقینا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت غلط باتیں بیان کر دیتا۔ غرض سب سے پہلے جو ہرقل نے مجھ سے پوچھا وہ یہ تھا کہ ان کا نسب تم لوگوں میں کیسا ہے؟ میں نے کہا کہ وہ ہم میں (بڑے نسب والے ہیں ۔ (پھر) ہرقل نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے ان سے پہلے بھی اس بات (یعنی نبوت) کا دعوی کیا ہے؟ میں نے کہا نہیں پھر ہرقل نے کہا کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟ میں نے کہا نہیں ۔ پھر ہرقل نے کہا کہ باثر لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے؟ میں نے کہا (امیروں نے نہیں بلکہ) کمزور لوگوں نے۔ پھر ہرقل بولا کہ آیا ان کے پیرو دن بہ دن بڑھتے جاتے ہیں یا گھٹتے جاتے ہیں؟ میں نے کہا کم نہیں ہوتے بلکہ زیادہ ہوتے جاتے ہیں۔ پھر ہرقل نے پوچھا کہ آیا ان لوگوں میں سے کوئی ان کے دین میں داخل ہونے کے بعد ان کے دین سے بدظن ہو کر منحرف بھی ہوجاتا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں ۔ پھر ہرقل نے پوچھا کہ کیا وہ کبھی وعدہ خلافی کرتے ہیں میں نے کہا کہ نہیں اور اب ہم ان کی طرف سے مہلت میں ہیں ، ہم نہیں جانتے کہ وہ اس مہلت کے زمانہ میں کیا کریں (وعدہ خلافی یا وعدہ وفائی) ابو سفیان کہتے ہیں کہ سوائے اس کلمہ کے مجھے قابو نہیں ملا کہ میں کوئی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں داخل کر دیتا۔ پھر ہرقل نے پوچھا کہ کیا تم نے کبھی اس سے جنگ کی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں تو ہرقل بولا تمہاری جنگ اس سے کیسی رہتی ہے؟ میں نے کہا کہ لڑائی ہمارے اور ان کے درمیان ڈول کے مثل رہتی ہے کہ کبھی وہ ہم سے لے لیتے ہیں اور کبھی ہم ان سے لے لیتے ہیں (یعنی کبھی ہم فتح پاتے ہیں اور کبھی وہ۔ پھر ہرقل نے پوچھا کہ وہ تم کو کیا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کی عبادت کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور (شرکیہ باتیں و عبادتیں ) جو تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے، سب چھوڑ دو اور ہمیں نماز پڑھنے اور سچ بولنے اور پرہیزگاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے ترجمان سے کہا کہ ابوسفیان سے کہو کہ میں نے تم سے اس کا نسب پوچھا تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہارے درمیان میں اعلی نسب والے ہیں چنانچہ تمام پیغمبر اپنی قوم کے نسب میں اعلی نسب مبعوث ہوا کرتے ہیں ۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا یہ بات (یعنی اپنی نبوت کی خبر) تم میں سے کسی اور نے بھی ان سے پہلے کہی تھی؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں ۔ میں نے اپنے دل میں یہ کہا تھا کہ اگر یہ بات ان سے پہلے کوئی کہہ چکا ہو تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک ایسے شخص ہیں جو اس قول کی تقلید کرتے ہیں جو ان سے پہلے کہا جا چکا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ ہوا ہوگا تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک شخص ہیں جو اپنے باپ دادا کا ملک(اقتدارحاصل کرنا) چاہتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا اس سے پہلے کہ انہوں نے جو یہ بات (نبوت کا دعوی) کہی ہے، کہیں تم ان پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے؟ تو تم نے کہا کہ نہیں پس اب میں یقینا جانتا ہوں کہ کوئی شخص ایسا نہیں ہوسکتا کہ لوگوں سے جھوٹ بولنا (غلط بیانی) چھوڑ دے اور اللہ پر جھوٹ بولے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا بڑے (بااثر) لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے؟ تو تم نے کہا کہ کمزور لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے۔ اور در اصل تمام پیغمبروں کے پیرو یہی لوگ ہوتے رہے ہیں ۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے پیرو زیادہ ہوتے جاتے ہیں یا کم؟ تو تم نے بیان کیا کہ زیادہ ہوتے جاتے ہیں اور درحقیقت ایمان کا یہی حال ہوتا ہے تاوقتیکہ کمال کو پہنچ جائے اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص بعد میں اس کے کہ ان کے دین میں داخل ہوجائے، ان کے دین سے ناخوش ہو کر دین سے پھر بھی جاتا ہے؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں اور ایمان کا حال ایسا ہی ہے جب اس بشاشت دلوں میں رچ بس جائے تو پھر نہیں نکلتی اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا وہ وعدہ خلافی کرتے ہیں تو تم نے بیان کیا کہ نہیں ! اور بات یہ ہے کہ اسی طرح تمام پیغمبر وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں؟ تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہیں یہ حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو نیز تمہیں بتوں کی پرستش سے منع کرتے ہیں اور تمہیں نماز پڑھنے سچ بولنے اور پرہیزگاری اختیار کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ پس اگر جو تم کہتے ہو سچ ہے تو عنقریب وہ میرے ان دونوں قدموں کی جگہ کے مالک ہوجائیں گے اور بے شک میں (کتب سابقہ کی پیش گوئی سے) جانتا تھا کہ وہ ظاہر ہونے والے ہیں مگر میں یہ نہ سمجھتا تھا کہ وہ تم میں سے ہوں گے۔ پس اگر میں جانتاکہ ان تک پہنچ سکوں گا تو میں ان سے ملنے کا بڑا اہتمام و سعی کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو یقینا میں ان کے قدموں کو دھوتا۔
0 comments:
Post a Comment